انڈیوسڈ ہائپوتھرمیا – جسم کو سرد کر کے موت سے بچانے کی تکنیک


جن افراد نے بھی میڈیکل فیلڈ میں ‌ ٹریننگ کی ہے، ہم سب نے یہ جملہ بہت مرتبہ سنا ہے کہ آپ مردہ تب تک نہیں ‌ ہیں ‌ جب تک آپ گرم اور مردہ نہیں ‌ ہیں۔ ٹھنڈے پانی میں ‌ ڈوبنے والے کئی افراد کو کئی گھنٹوں ‌ بعد بھی دوبارہ زندہ کرلیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کئی دلچسپ ہالی وڈ موویاں ‌ بھی بن چکی ہیں۔ یہ بات کس کے ذہن سے نہیں گزری کہ موت کے فوراً بعد ہمیں بھی برف میں زندہ رکھا جائے تب تک جب سائنس ہمیں دوبارہ زندہ کرنے کے لائق بن جائے۔ آخر کار موت ہی وہ مسٹری ہے جس کے گرد دنیا بھر کے انسانوں نے بھانت بھانت کے تصورات پیش کیے ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں اگر دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو موت یا معذوری واقع ہوسکتی ہے۔ سائنسدانوں ‌ نے سوچا کہ ان افراد میں ‌ جن کو اسٹروک ہوگیا ہو یا دل کا دورہ پڑا ہو، اگر مصنوعی طریقے سے جسم کا درجہء حرارت کم کردیا جائے تو دماغ کے خلیوں ‌ کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہماری انٹرنل میڈیسن کی‌ ریزیڈنسی کے دوران‌ بھی آئی سی یو میں اس طریقے سے مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔ ان مریضوں کی نسوں میں ٹھنڈا سیلین سرکیولیٹ کیا جاتا تھا اور ان پر ٹھنڈا کمبل بھی ڈالتے تھے۔

ان مریضوں کو دواؤں سے کوما اور فالج میں رکھا جاتا تھا تاکہ وہ ٹھنڈ سے نہ کانپیں جو کہ ہم جانتے ہیں جسم کا ایک مدافعتی نظام ہے جس سے اس میں درجہء حرارت بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان مریضوں میں درجہ ء حرارت ناپنے کے لیے سینٹرل تھرمامیٹر استعمال ہوتا ہے جو بغل میں یا منہ میں استعمال کیے جانے والے تھرمامیٹر سے زیادہ قابل بھروسا ہوتا ہے۔ اس طریقے سے علاج کرنے کے لیے آپ کو ایک نرسوں اور ڈاکٹروں کی پوری ماہر ٹیم کی ضرورت ہوگی جو میڈیکلی انڈیوسڈ ہائپوتھرمیا کے پروٹوکول سے واقف ہو۔

یہ ہماری اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ کی پریکٹس سے باہر ہے۔ جو افراد میڈیکلی انڈیوسڈ ہائپو تھرمیا کے حالیہ طریقے کو مزید تفصیل سے سیکھنا چاہیں ان کو اس فیلڈ کے ماہرین سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ نرسنگ ایک بہت کارآمد پروفیشن ہے۔ امریکہ میں سو میں سے ایک فرد ایک نرس ہے۔ نرس صرف خواتین ہی نہیں بلکہ کوئی بھی بن سکتا ہے۔ نرس بننے سے صرف نرس کی ہی نہیں بلکہ ان کے سارے خاندان کی زندگی بہتر ہوجاتی ہے۔

میڈیکلی انڈیوسڈ ہائپوتھرمیا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ اس طریقے سے باقاعدہ علاج تقریباً پچاس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ دماغی خلیوں میں اسٹروک یا دل کے دورے کے بعد شروع میں وہ کچھ بہتری دکھاتے ہیں جو تقریباً چھ گھنٹے تک رہتی ہے اس کے بعد انفلامیشن کی وجہ سے سیکنڈری نقصان شروع ہوجاتا ہے جس میں یہ خلیے سوج جاتے ہیں اور ان کے آکسیجن کے میٹابولزم کے نظام کے بگڑنے سے ان کی موت واقع ہوتی ہے۔ اس مشاہدے کے گرد ڈیزائن کی گئی ریسرچ اسٹڈیز سے معلوم ہوا کہ اسٹروک یا دل کے دورے کے فوراً بعد اگر جسم کا درجہء حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کردیا جائے تو ان خلیوں کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور اس سے ان خلیوں کی دیرپا حفاظت بھی ہوتی ہے۔

آکسیجن کی کمی سے ہونے والے دماغی صدمے سے اب بھی ترقی یافتہ دنیا میں 1000 میں سے ایک یا دو بچے پیدائش کے وقت مر جاتے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک میں یہ خطرہ دس گنا زیادہ ہے۔ جیساکہ قارئین واقف ہوں گے، پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ ماؤں کی تعلیم و تربیت، ان کی معاشی طاقت اور اپنی زندگی پر کنٹرول تمام معاشرے کی ترقی کے لیے اہم ہے۔

جسم کے درجہء حرارت کم ہونے سے دماغ کو پہنچنے والے صدمے سے بچاؤ ممکن ہونے کے کانسپٹ سے قدیم زمانے کے طبیب واقف تھے۔ مصری، یونانی اور رومی طبیب جنگ میں زخمی ہوجانے والے افراد کو ٹھنڈا رکھنے کی تلقین کرتے تھے تاکہ ان کے زخم جلدی بہتر ہوسکیں اور دماغ کو نقصان کم پہنچے۔ یونانی طبیب ہپاکرٹیس نے مشاہدہ کیا کہ جو نوزائدہ بچے سردیوں میں پیدا ہوئے ان میں سرواؤل ان بچوں سے زیادہ تھا جو گرمیوں میں پیدا ہوئے۔

کئی صدیوں کے بعد، کلاڈ برنارڈ اور ولیم ایڈورڈز نے انسانی جسم پر ٹھنڈ کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے جانوروں پر تجربات سے یہ بھی دیکھا کہ نئے پیدا ہوئے بلی کے بچے آکسیجن کی کمی میں ٹھنڈے ماحول میں زیادہ دیر تک سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تجربات کو دیگر جانوروں میں بھی دہرا کر ملتے جلتے نتائج دیکھے گئے۔ ان تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جسم کا درجہء حرارت کم ہوجانے سے میٹابولزم آہستہ ہوجاتا ہے اور آکسیجن کی ضرورت کم ہوجاتی ہے جس سے زندہ رہنے کا چانس زیادہ ہوتا ہے۔

1950 اور 1960 کی دہائیوں میں کچھ کلنکل ٹرائلز کیے گئے جن میں ان نوزائدہ بچوں کو ٹھنڈے پانی میں ڈبویا گیا جنہوں نے پیدا ہونے کے بعد پانچ منٹ تک سانس نہیں لیا تھا۔ ان کو یخ بستہ پانی میں تب تک رکھا گیا جب تک انہوں نے سانس لینا شروع نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کو خود ہی اپنے جسم کا درجہء حرارت بڑھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ان بچوں میں زندہ رہنے کا تناسب ان بچوں سے زیادہ دیکھا گیا جن پر یہ تجربہ نہیں کیا گیا تھا۔ پھر میڈیکل سائنس میں ترقی کے ساتھ اور اس طریقہء علاج سے ہونے والی کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے ان بچوں کا اس طرح علاج کرنا ترک کردیا گیا۔

ایک نیا طریقہ جو کہ میں نے انٹرنل میڈیسن کی ریزیڈنسی میں بھی دیکھا وہ یہ ہے کہ ہائپوتھرمیا کا دورانیہ 72 گھنٹے تک ہے۔ اس پر پہلے چوہوں میں تجربات کیے گئے جن کے دو گروہ بنائے گئے۔ ایک گروہ میں ان چوہوں کو چھ گھنٹے اور دوسرے گروہ کو 72 گھنٹے تک ٹھنڈا رکھا گیا۔ ان چوہوں میں جسم کا درجہء حرارت دو سے تین سینٹی گریڈ کم کردینے سے دماغ کو ہونے والے نقصان میں کمی واقع ہوئی جو 72 گھنٹے تک ٹھنڈے رکھے گئے تھے۔ چھ گھنٹے والے گروہ میں اتنا فائدہ نہیں دیکھا گیا۔ 72 گھنٹے ہی زیادہ تر اسٹڈیز میں مناسب وقت دیکھا گیا ہے۔ اس کو 120 گھنٹے کردینے سے سائنسدانوں نے مزید کچھ فائدہ نہیں دیکھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریضوں کے لیے یہ موقع کی کھڑکی کتنی دیر کے لیے کھلی رہتی ہے؟ ابھی تک جو بھی تحقیق ہمارے سامنے ہے اس سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسٹروک یا دل کے دورے کے بعد جتنا جلد ہوسکے ہائپوتھرمیا سے علاج کرنا شروع کردینا چاہیے تاکہ آکسیجن کی کمی سے ہونے والے نقصان سے دماغ کو محفوظ کیا جاسکے۔ نوزائدہ بھیڑوں میں کیے تجربات سے یہ بھی سامنے آیا کہ جب اتنا انتظار کیا گیا جب ان کو اسٹروک کے بعد دورے پڑنے لگے تو اس کے بعد ہائپوتھرمیا کے پروسیجر سے ہونے والا فائدہ اتنا زیادہ نہیں ہوا جیسا کہ ان نوزائدہ بھیڑوں میں دیکھا گیا جن کو اسٹروک کے فوراً بعد ٹھنڈا کردیا گیا تھا۔

یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف سر کو ٹھنڈا کردینا کافی ہے یا سارے جسم کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہے؟ نئے پیدا ہوئے جانوروں کے دماغ میں درجہء حرارت کی مختلف تہیں ہوتی ہیں۔ دماغ کے اندر کا حصہ باہر والے حصے سے تقریباً ایک یا دو ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوتا ہے۔ اگر سر پر ٹھنڈا رکھنے والی ٹوپی استعمال کی جائے اور جسم گرم ہی رہنے دیا جائے تو ٹھنڈ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے جسم کو بچایا جاسکتا ہے جیسا کہ جلد کے نیچے کیلشیم جمع ہوجانا۔ ان نئے پیدا ہوئے بچوں میں جن میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دماغ کے خلیوں کا تباہ ہوجانا متوقع تھا، سر کو ٹھنڈا رکھنے سے فائدہ دیکھا گیا۔

ابھی تک یہ سارا نظام پوری طرح سے نہیں سمجھا گیا ہے کہ درجہء حرارت کم کردینے سے کس طرح یہ نیوروپروٹیکشن حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت یہی کہہ سکتے ہیں کہ ٹھنڈا کرنے سے خلیوں میں وہ نظام دب جاتے ہیں جن سے اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ درجہء حرارت کم ہوجانے سے خلیے میں زہریلے مادے، فری آکسیجن ریڈیکلز اور آکسیجن کی کمی سے ہونے والی انفلامیشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔

کاکرن میٹا انالسس کے مطابق 11 کلنکل ٹرائلز میں 1505 نوزائیدہ بچوں پر درجہء حرارت کم کرنے کے تجربے سے ان میں موت اور دماغی امراض میں کمی دیکھی گئی۔ یہ فرق صرف ایک یا دو سال تک نہیں بلکہ اسکول جانے کی عمر تک دیکھا گیا۔ یہ تجربہ اور بھی کئی ہسپتالوں میں مختلف طریقوں سے آزمایا گیا اور ملتے جلتے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب سائنسدان ڈاکٹر یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ماں کے پیٹ میں بیمار بچوں کا اس طرح علاج کرنے سے کچھ فائدہ ہوگا؟ اس پر مزید تحقیق جاری ہے۔

یہ بات اس موضوع سے باہر ہے لیکن مٹاپے اور ذیابیطس سے گہرا تعلق رہتی ہے کہ توانائی کا توازن صحت کے لیے اہم ہے۔ دنیا بھر میں مٹاپا اور ذیابیطس بڑھ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، میٹابولزم کے زریعئے ہمارا جسم غذا سے ملنے والی توانائی کو حرارت میں تبدیل کرتا ہے، اپنے گھر کا درجہء حرارت کم رکھ کر ہم زیادہ کیلوریز خرچ کرسکتے ہیں۔ وہ بس قابل برداشت ہونا چاہیے، اتنا ٹھنڈا بھی نہیں کہ نمونیا ہوجائے۔

مطالعے کے نتائج

میڈیکلی انڈیوسڈ ہائپوتھرمیا کی تاریخ اور جدید تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان بچوں اور بڑوں میں جن میں کسی بھی وجہ سے آکسیجن کی کمی واقع ہوگئی ہو، جسم یا سر کا درجہء حرارت کم کرکے دماغ کے خلیوں کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ میڈیکلی انڈیوسڈ ہائپوتھرمیا سے ان مریضوں میں موت اور معذوری میں کمی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments