بی بی کی شہادت پر قاتل قاتل مشرف قاتل کے نعرے


کچھ نادان تو بے نظیر بھٹو شہید پر حملے کا الزام ان کے شوہر آصف علی زرداری پر لگانے سے بھی بعض نہیں آتے۔ اور جب ان سے اس بے ہودہ الزام کے ثبوت مانگے جائیں تو فرماتے ہیں ان الزامات کی ابتدا چودھری شجاعت حسین نے اس وقت رکھی جب مشرف دور میں بینظیر بھٹو کے کراچی پہنچنے پر پہلا دھماکہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد کہا گیا کہ یہ سب کچھ زرداری نے کروایا ہے تاکہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے لئے عوامی ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔ یقینا سیانے سچ کہتے ہیں کہ جھوٹ کا سر ہوتا ہے اور نا ہی پیر۔ بالکل ننگ دھڑنگ بلکہ دھڑا دھڑ۔

اگر آپ پیپلزپارٹی کے بانی رہنماء بشیر ریاض کی کتاب ”بینظیر یادیں“ کا مطالعہ کرلیں تو آپ بہت سے رازوں سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ خفیہ اداروں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ناصرف بی بی شہید کے نوکروں کو خرید رکھا تھا بلکہ میڈیا کے کچھ لوگوں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی تھی۔ 2003 ء میں دبئی کے مشہور ہوٹل میں ایک نجی ائیرلائن کے مالک نے محترمہ بینظیر بھٹو کو عشائیے پر مدعو کیا۔ جس میں بی بی کے ہمراہ بشیر ریاض اور فاروق نائیک تھے۔ جب بینظیر بھٹو اس ہوٹل کے لبنانی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئیں تو وہاں پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے اینکر بھی موجود تھے۔ ڈنرٹیبل پر شراب کی بوتلیں تھی جو کچھ لوگ پی رہے تھے۔ اور اس بارے بی بی بالکل بے خبر تھی۔

اس اینکر کا نام ڈاکٹر شاہد مسعود ہے جو فون پر بار بار کسی سے بات کررہے تھے۔ بشیر ریاض ان کی مشکوک حرکات، سکنات کو بھانپ کر جائزہ لینے لگ گیا۔ اتنے میں اچانک نیم عریاں لباس میں ڈانسرز نمودار ہوئیں۔ تو بی بی شہید وہاں سے فورا اٹھ گئی اور انہیں سخت غصہ آیا تھا۔ بشیر ریاض لکھتے ہیں کہ میں نے بی بی کو بتایا کہ یہ اینکر موبائل پر خبر لکھواتے ہوئے آپ کی تصویر بنانا چاہتا تھا تاکہ اپنے چینل پر چلاسکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بینظیر بھٹو ایک عظیم سیاسی لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی صاحبزادی تھی اس لئے جمہوریت سے وفاداری ان کو بچپن سے سکھائی گئی تھی اور جمہوریت پسندی انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انہوں نے آصف علی زرداری سے شادی کی تقریب کے موقع پر کہا تھا کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے انہیں اپنی جان کا نظرانہ بھی پیش کرنا پڑے گا تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گی، اور پھر یہ ثابت کرکے دکھایا بھی۔ ایسا نہیں کے بینظیر بھٹو اپنے انجام سے واقف نہیں تھی بلکہ انہیں پکا یقین تھا کے جمہوریت دشمن قوتیں ان کی جان کے درپے ہیں۔ مگر وہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی کے بجائے شیر کی ایک دن والی زندگی جینا چاہتی تھی۔

حامد میر، وولف بلٹزر اور مارک سیگل (واضح رہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو ضیاء الحق کے دور میں وطن واپس آرہی تھی تو اسی صحافی مارک سیگل نے ایک بلٹ پروف جیکٹ لاکردی تھی) جیسے معروف صحافیوں کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی ہی میں بتادیا تھا کہ ان کا ممکنہ قاتل پرویز مشرف ہی کو تصور قرار دیا جائے۔ کیونکہ جب 18 اکتوبر 2007 کو محترمہ وطن واپس آچکی اور ائیر پورٹ سے لے کر شارع فیصل تک عوام کا جم غفیر جمع ہو گیا تھا۔

تو انہیں اس سلسلے میں مزار قائد جاکر جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ لہذا محترمہ بینظیر نے خیال ظاہر کیا کہ وہ جیمر استعمال کریں تاکہ ان کے آس پاس دھماکہ کے لئے موبائل کے استعمال کو روکا جائے۔ لیکن اس وقت ایک طرف مشرف حکومت نے انہیں جیمر آلات استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تو دوسری طرف ان پر دھماکہ کے بعد پرویز مشرف منافقانہ پالیسی کے تحت انہیں فون کرکے حملہ کی مذمت اور دکھ کا اظہار کرتا رہا تھا۔

پرویز مشرف چاہتا تھا کہ بینظیر بھٹو الیکشن تک جلاوطن رہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ مشرف نے ان پر سخت برہمی میں مختلف ذرائع سے دباؤ بھی ڈالوایا کے وہ پاکستان سے چلی جائے۔ کیونکہ مشرف دعوی کرچکا تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے نہیں آئیں گی۔ پھر بی بی نے مشرف سے بات چیت بالکل منقطع کردی اور 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد اعلان کیا کہ اب وہ پرویز مشرف سے کوئی بات چیت نہیں کرینگی۔ جس کے بعد وہ لیاقت باغ میں قتل کردی گئی۔ جہاں قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی شہید کیا تھا۔ بی بی کی شہادت کے فورا بعد زخمی کارکنوں نے ساتھیوں کی لاشیں اٹھا کر جو پہلا نعرہ لگایا وہ تھا ”قاتل قاتل مشرف قاتل“۔ اور یوں ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ ساتھ آمریت کو بھی قبر میں دفن کرگئی۔

دعا ہے کہ ہمیں ان جیسی کوئی لیڈر مل جائے مگر تاحال ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ بینظیر تو بے مثال تھی اور کاش کہ ہمیں ایسی عظیم لیڈر کی عظیم قربانی کا احساس ہوجائے کیونکہ اگر شہید بی بی جمہوریت کے بدلے اپنے مفادات پر مشرف سے این آر او کرلیتی تو نہ کبھی مشرف آمریت کا خاتمہ ممکن ہو پاتا۔ نہ کوئی سویلین کی برائے نام ہی سی کوئی حکومت اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ پاتی۔ نہ آج آئینی و قانونی لحاظ سے میڈیا آزاد ہوتا۔ اور نہ جج بحال ہوکر آئین شکن مشرف کے خلاف اس قدر آزادنہ طور پھانسی کا فیصلہ سنا سکتے۔ ان کی اس لازوال قربانی کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور انہوں نے آمریت کے خلاف ایسی سیاسی جنگ لڑی جس نے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments