میرا کراچی مر چکا ہے


عالم شباب میں، میں جب کراچی آیا تھا تو یہ شہر واقعی روشنیوں اور رنگوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔

جوڑیا بازار میں سلور کے برتنوں کا کاروبار کرتے محمد حسین اور لیاری ڈگری کالج کے سامنے رہائش پزیر ارشار کچھی نے مجھے سارا کراچی گھومایا تھا۔ ان کی باوا پٹ میں رشتہ داری تھی تو باوا پٹ، منوڑا سے کلفٹن اور ہاکس بے تک اُن کی فیملی کے ساتھ پکنک کے لیے گیا۔ اُن کی والدہ بڑی شفیق اور محبت کرنے والی خاتون تھی۔ ہمشیہ میرے آنے پر ارشاد کو آواز لگاتیں۔

”اے ارشاد۔ وسیم آیا ہے“

زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں وہ دوست تو کھو گئے مگر اُن کی والدہ کی آواز اور انداز آج بھی مجھے ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔

آپ دوستوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ انھوں نے اس دوران مجھے کبھی ایک روپیہ خرچ نہ کرنے دیا۔ ان کی اس مہربانی سے بچنے کو اب میں ان کے بغیر کراچی گھومنے لگا تھا۔ لیاری کی سیزو ساٹھ نمبر بس سے شروع ہونے والا سفر صدر سے ہر طرف جاری بسوں تک آ پہنچا تھا۔ میں صدر پہنچ کر کسی بھی بس میں ونڈو کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جاتا اور آخری اسٹاب تک جاتا۔ بلند و بالا عمارتیں، رنگ برنگی دکانیں اور جھلمل کرتا شہر مجھے بہت بھاتا۔ جوانی مستانی تو ہوتی ہے مگر میں نے کراچی کی لڑکیوں سے زیادہ پراعتماد اور ہوشیار کہیں کی لڑکیوں کو نہیں پایا۔ وہ صبح کالج کے لیے نکلتی اور شام ڈھلے گھر واپس لوٹتیں۔ میں نے ان پر بڑے جال ڈالے مگر گپ شپ اور ٹائم پاس کرنے کو کوئی راضی نہ ہوئی۔

بسوں کے سفر نے میرے مشاہدے کو بہتر کیا اور انسانوں کی چہرے پڑھنے کا گر سکھایا۔ ہر انسان اپنی زندگی میں کسی بڑی ہستی سے انسپریشن لیتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں نے انسپریشن کراچی کی بسوں کے کنڈیکٹروں سے لی۔

جوانی میں ہمیں بھی حکومت، سماج معاشرے اور سیاستدانوں سے شکایات رہتی تھیں۔ زندگی میں ہر چیز کا حصول ایک مشکل امر محسوس ہوتا تھا۔ پھر میں نے بس کے مسافروں، سامان بیچنے والوں اور کنڈیکٹرز پر غور کرنا شروع کیا۔

بس میں مسافر ایسے بھرے ہوتے جیسے کسی مڈل کلاس انسان کی زندگی میں پریشانیاں اور مشکلات، بس میں کھڑے راستہ روکے مسافر ان رکاوٹوں کی مانند لگتے جو میری ہر خواہش کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوتیں۔ میں ان مشکلات سے دلبرداشتہ اور مایوس ہو جاتا مگر بس کا کنڈیکٹر اس بھیڑ بھاڑ میں نہ صرف راستہ بنا لیتا بلکہ ہر انسان کا کاندھا دو بار تھپتھپا کر کرایہ مانگتا۔ مجال ہوتی کہ کوئی اس کی عقابی نظروں سے بچ پایا۔

مجھے یہ دیکھ کر حوصلہ ملا کہ میں کیوں نا حق پریشان ہوں اگر انسان محنت کرے تو زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اپنی مننرل کا کندھا جا پھپتھپاتا ہے اور پھر کامیابی اُس کے قدم چوم ہی لیتی ہے۔ اُن دنوں بس میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے سے ہر مسلے پر گپ شپ لگاتے۔ سیاست سے مذہب اور رشتہ داریوں سے مہنگائی تک ہر بات زیر بحث آتی۔ بوڑھے انڈیا میں موجود اپنے رشتہ داروں گاؤں اور شہروں کو یاد کر کے آئیں بھرتے، وہاں کی سوغاتوں کھانوں رسم رواج ہر بات چیت کرتے ہوئے ان کے چہروں پر ایک عجیب سے خوشی اور آنکھوں میں نمی آ جاتی۔

بنگلہ دیش سے آئے لوگ بھاشانی سویٹس دیکھ کر سلہٹ اور ڈھاکا کے قصے سناتے۔ نوجوان کسی سفید ریش یا سفید بالوں والے کو دیکھ کر فورا سیٹ چھوڑ دیتے۔ کسی نوجوان کے ہاتھوں میں کوئی بھاری سامان دیکھ کر بزرگ ان سے سامان لے کر اپنی گود میں رکھ لیتے۔ بچے اٹھائے جوان مرد بھی سیٹ کے حقدار تصور کیے جاتے اور اکثر کھڑے بچوں کو بزرگ اپنی گود میں بٹھا لیتے۔ بس میں سوار سب لوگ ایک خاندان جیسے ہوتے جس کے دکھ درد غمی اور خوشی سانجی ہوتی۔

ہر اسٹاپ پر کوئی نہ کوئی، کچھ نہ کچھ بیچنے کو بس میں آکھڑا ہوتا۔ سواریاں اس سے لازماً کچھ خریدتیں اور یوں زندگی رواں دواں رہتی۔

آج برسوں بعد دوبارہ بس کا سفر کیا تو پرانا کچھ نہ پایا۔ نوجوان بے غیرتی اور بے حسی کی تصویر بنے سیٹوں پر برجمان اپنے اپنے موبائلز پر لگے رہے۔ بوڑھے لزرتی ٹانگوں اور کھپکپاتے ہاتھوں سے خود کو لڑھکنے سے بچاتے رہے۔ کوئی سامان بیچنے والا بس میں داخل نہ ہوا۔ شاید اب لوگ بیماریوں کے ڈر سے یا پھر مہنگائی کی وجہ سے کچھ نہیں خریدتے، یوں بسوں کی وہ رونق بھی ختم ہوگئی۔

سارے سفر کے دوران لوگوں خاموش اور کھوئے کھوئے سے تھے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کے چہروں پر ان کے دماغ میں چلتی سوچیں کسی فلم کی طرح صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔ کسی نے کسی کا سامان نہ لیا۔ بچے کھڑے رہے۔ بوڑھے لزرتے رہے نوجوان مست بیٹھے رہے۔ اور بس موجودہ خاندان کی طرح اجنبیت کا شہکار لگی۔ ایک ایسا کنبہ ایسا گھرانہ جہاں آج سے تیس چالیس سال قبل سب بھائی بہنیں اور والدین کشادہ صحن میں چارپائیوں پر بیٹھ کر شام کی چائے پیتے، قہقہے اور گپ شپ لگائے۔

گو کہ اب بھی بس میں بیٹھے لوگ ایک ہی خاندان کے ممبرز تھے مگر یہ خاندان آج کے گھرانوں کی بہترین منظر کشی پیش کر رہا تھا۔ جیسے آج کے گھروں میں باپ بیٹے اور بہنیں سب موجود تو ایک ہی چھت تلے ہوتے ہیں مگر سب اپنے اپنے موبائلز، ٹی وی ڈراموں اور ویڈیوز گیمز میں مصروف ایک دوسرے سے منہ موڑنے اپنی اپنی زندگی میں مصروف رہنا پسند کرتے ہیں۔ ۔ تو بس میں بھی کسی کو کسی کی فکر نہ تھی اور نہ کوئی کسی سے کلام کر کے اپنا وقت برباد کرنے میں موڈ میں تھا۔

زندگی سے ہر یاد مٹتی جاتی ہے۔ ہر روایت ختم ہو رہی ہے۔ ہر اپنا کھو رہا ہے۔ آج یہ سب دیکھ کر دل پھر خون کے آنسو رویا کہ اِس خوبصورت شہر کی اچھی روایات اور لوگوں کے چہروں پر ان کے قصوں کی صورت میں چمکتی روشیاں بھی ختم ہو چکیں۔ خاندان ختم ہوگیا اب ہم سب ایک بھیڑ، ایک ہجوم ہیں۔ یا کوئی ریوڑ یا گلہ۔ ہم انسان نہیں رہے۔ کیونکہ بندہ تو بندے کا درمان ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments