عمران خان اب کیا کرے؟


دل کیا کرے جب کسی کو کسی سے پیار ہوجائے

اونچی اونچی دیواروں کی اس دنیا کی رسمیں

نہ کچھ تیرے بس میں جولیؔ نہ کچھ میرے بس میں

ایک زمانے میں ’جولی‘ بولڈ ترین فلم تصور کی جاتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اُس فلم میں دو مختلف مذاہب کے افراد کا معاشقہ دکھایا گیا تھا اور دوسری بات یہ کہ شادی سے قبل ہی سب کچھ ہوتا بڑے graphicانداز میں دکھا دیا گیا تھا۔ اس فلم کا سب سے بولڈ گانا وہی ہے جو کہ اوپر تحریر ہے۔ ایک زمانے میں ’جولی‘ اور اس کے گانے ہی لوگوں کے دلوں میں ’سائیکلون‘ برپا کردیا کرتے تھے۔ تب عمومی طور پر شرافت یا ’قلت‘ کا زمانہ تھا۔

کم و بیش ایسا ہی دور نوے کی دہائی کے اواخر تک بلکہ سنہ دو ہزار تک بھی چلا مگر اس کے بعد ’شیفالی جری والا‘ نے ’کانٹا لگا‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور پھر عمران ہاشمی، ملیکہ شراوت۔ مستی، گرینڈ مستی، گریٹ گرینڈ مستی، الغرض بھارت بالکل ہی امریکہ بن گیا اور ساری دنیا عرف عام میں گلوبل ولیج بن گئی۔ اب کوئی گانا، کوئی فلم کیا بولڈ کہلائے گی؟ اب تو ہر بچے، بڑے، عورت، مرد کے ہی فون میں ’لاس ویگاس‘ میں بننے والی مٹھائی کی دکانوں کی ’رس گلّے‘ اکثر کھلے ملتے ہیں۔ یہ دور کثرت کا ہے۔ اور کثرت انسان سے چیز کی کشش ختم کردیتی ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں اسے desensitize کر دیتی ہے۔ مگر چلئے ایک پل بھول جائے کہ آپ آج کے دور میں زندہ ہیں۔ تصور کیجئے کہ ابھی جولی فلم رلیز ہوئی ہے اور آپ پہلی بار وہ فلم دیکھ رہے ہیں اور یہ گانا آتا ہے،

”دل کیا کرے جب کسی کو کسی سے پیار ہوجائے

اونچی اونچی دیواروں کی اس دنیا کی رسمیں

نہ کچھ تیرے بس میں جولیؔ نہ کچھ میرے بس میں۔ ”

مگر آپ یہ تصور بھی اب کب کرسکیں گے؟ آپ کے تصورات بھی اب مدھم ہوچکے۔ دل و دماغ بدل چکے desensitize ہوچکے۔ بات صرف جولی اور اس فلم کے ساتھ جڑے ماضی کی نہیں، بات یہ ہے کہ ہم اور آپ تو یہ بھی بھول چکے کہ ہمارے ملک میں ایک دور میں صرف پی ٹی وی کا خبرنامہ ہی واحد خبرنامہ ہوا کرتا تھا۔ اخبارات بھی بہت محتاط انداز میں کچھ لکھا کرتے تھے۔ بڑے بڑے قومی سانحات کو ان ادوار میں بالکل ’جارج آرول‘ کے ناول ’انیس سو چوراسی‘ کی طرح غائب کردیا جاتا تھا۔

لوگ بھول چکے کہ سنہ انیس سو اکہتر میں پاکستان ٹوٹا تھا۔ لوگ بھول گئے کہ ہماری بہادر اور جری فوج نے بڑے شرمناک انداز میں بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ لوگوں کو یاد ہی نہیں کہ اس ملک میں اوجھڑی کیمپ کا سانحہ ہوا تھا، اس ملک میں قصبہ کالونی، علیگڑھ اور کچے اور پکے قلعے کے سانحات ہوئے تھے۔ لوگوں کو یاد ہی نہیں کچھ۔ کیونکہ جب یہ سب ہوا تو اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے خاموشی اختیار کیے رکھی یا جھوٹ بولا۔ لوگ ایک ایک سچی خبر کو ترستے تھے۔ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ جس سے اصل خبر کسی تک پہنچ سکے۔ زیادہ پرانی بات نہیں سنہ انیس سو ننانوئے میں جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تب بھی کس کو کیا پتہ چلا تھا؟ پی ٹی وی پر بندروں کی ڈاکیومنٹری فلمیں آرہی تھیں اور پھر رات گئے مشرف کی تقریر نشر کی گئی تھی۔

مگر اب تو ہر طرف آزادی ہی آزادی ہے۔ میرے جیسا چھوٹا آدمی بھی اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں لکھ کر چھپوا سکتا ہے اور آپ پڑھ سکتے ہیں۔ یہ بات آج سب سے زیادہ جس کو کھل رہی ہے وہ کوئی اورنہیں عمران خان صاحب اور تحریک انصاف ہے۔ وہ رو رہے ہیں اور سر پٹک رہے ہیں کہ کاش بیس، تیس، چالس سال پرانا ماحول اس ملک میں لاٹ آئے۔ کاش یہ ٹی وی چینل، یہ انٹرنیٹ یہ سب کسی جادو سے غائب ہوجائیں تاکہ ان کو حکومت چلانے اور اسٹیبلیشمنٹ کی دراڑ میں لیپا پوتی کرنے میں تھوڑی سی آسانی میسر آجائے۔ فوجی جنتا کو ابکی بار عدلیہ نے امریکی و یورپی زور پر دیوار سے لگا دیا ہے۔ ان کے پکڑے سارے لوگ چھوڑ دیے۔ فوج کے جرنیلوں کو ذلیل کیا اورپھر بھی عدلیہ کا کچھ نہیں بگڑا۔ ایک دو ٹکے کی بھارتی فلم ”اعلان“ میں ایک بڑا دلچسپ ڈائیلاگ ہے،

”جب تک ڈر ہے تب تک بابا سکندر ہے“

ہماری اسٹیبلشمنٹ کے بابا سکندر کا ڈر اب نکل چکا۔ عمران خان اور ان کے انڈے بچے تو بیچارے ملک کے ceremonial حکمران ہیں ان کی اوقات تو اس دیوار سے لگے بابا سکندر کے سامنے بھی کیا ہے؟ ان بیچاروں کا کام ہے صرف اسٹیبلشمنٹ کا پھیلایا گند اُٹھانا اور ذلیل ہونا۔ اب عدلیہ ”ٹرمینیٹر ٹو“ کے اسکائی نیٹ کی طرح خودکار ہوگئی ہے۔ اس پر خان صاحب اور ان کی حکومت کا کوئی زور نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر ان کا کوئی زور نہیں۔ ان کا زور تو اپنے وزیروں پر بھی کچھ نہیں۔ عمران خان تو انکل مجبور سے بھی زیادہ مجبور ہوگئے۔ اُف یہ کیسی حالت ہے، کیسی کیفیت ہے، کیا یہ حکومت ہے؟

نہ کچھ تیرے بس میں جولیؔ نہ کچھ میرے بس میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments