تین عورتیں، ایک مرد اور چھوٹا لڑکا


پرنسپل نصرت جبین صاحبہ سنا ہے آپ فوت ہو گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میں یہاں آپ کی وفات پر تعزیتی کلمات لکھوں۔ آپ کی شان میں ہلکا پھلکا قصیدہ کہوں۔ دنیا کو بتاوں کہ آپ کے جانے سے ایک نا قابل پر خلا پیدا ہو گیا اور ہم سب ایک ماہر تعلیم عظیم شخصیت سے محروم ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ایسے ہی جذبات ہوں۔ لیکن میں ان میں سے نہیں ہوں۔ مجھے آپ کی وفات پر افسوس نہیں، مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں آپ کی زندگی میں یہ سب آپ کے منہ پر نہ کہہ سکا۔

پرنسپل صاحبہ آپ مجھے بھولی تو نہ ہوں گی ۔ آپ کی بلیک بک میں سب سے اوپر میرا ہی نام تو تھا۔ میرا اسکول کا پہلا دن وہ آپ کو یاد نہ ہوگا لیکن مجھے یاد ہے۔ ہمارے گھر کی کچھ گلیاں چھوڑ کر جب آپ کا انگلش میڈیم اسکول کھلا تو اماں کا شوق اور بھی شدت اختیار کر گیا مجھے انگریزی پڑھانے کا۔ اور ایک دن اماں میرا ہاتھ تھام کر اسکول میں لے آیں۔ آپ کے کمرے میں آپ کے سامنے میں اور اماں بیٹھے۔ اور اماں نے خوشی خوشی بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو داخل کرانے آئی ہیں۔

” واٹس یور نیم بوائے؟ “ آپ نے سوال کیا۔ آپ کا لہجہ کرخت تھا۔

” چنو“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اماں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ”جی اس کا نام فیضان علی ہے۔ چنو تو اسے گھر میں پیار سے کہتے ہیں“ لیکن نہ آپ کے چہرے کی کرختگی کم ہوئی اور نہ ماتھے کی شکنییں کم۔ ۔ مجھے آپ بالکل بھی اچھی نہیں لگیں۔

اماں ایک عرصہ تک یہ بات ہر آئے گئے دوست رشتہ دار کو ہنس ہنس کر سناتی تھیں اور اسی لئے یہ پورا واقعہ میرے ذہن میں تازہ رہا۔ خیر میرا داخلہ ہو گیا۔ مس ڈی سوزا پہلی سے تیسری کلاس تک میری کلاس ٹیچر رہیں اور یہی تین سال میری اسکول زندگی کے بہترین سال تھے۔ سانولی رنگت کی بھاری جسم والی ساڑھی میں ملبوس مس ڈی سوزا کے ہونٹوں پر ہر وقت ایک مسکراہٹ رہتی تھی اور دل خودبخود ان کی طرف کھنچتا تھا۔

اماں ایک کالج میں کنٹین پر کام کرتی تھیں۔ ان کے ذمے سموسے، دہی پھلکی اور چاٹ بنانا تھا۔ ہمارے دو کمرے کے کوارٹر میں ہر وقت یہی چیزیں بنتی رہتی تھیں۔ صبح سویرے کالج کی وین آتی اور اماں تسلے اور پتیلے اٹھائے اس میں سوار ہو جاتیں۔ باجی سرکاری اسکول میں پڑھتی تھی۔ اماں کو کالج میں لڑکے لڑکیوں کو انگریزی میں گٹ پٹ کرتے دیکھ کر مجھے بھی انگریزی اسکول میں داخل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا اور یہی میری بدنصیبی رہی۔ ٹھیک سے یاد نہیں شاید میں پانچ سال کا تھا کہ ابا ایک دن گھر سے نکلے اور پلٹ کر نہ آئے۔ کئی دن اماں کو زاروقطار روتے دیکھا اور ابا کو غائب پایا۔ باجی نے بتایا کہ ابا ہمیں چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔ ابا سے میرے تعلقات کچھ اتنے گرم نہیں تھے سو میں نے اس وقت تو زیادہ محسوس نہیں کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے اس کمی کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ مجھے اپنا گھر، اپنی زندگی اور اپنا وجود نامکمل لگنے لگا۔

ہاں تو پرنسپل صاحبہ بات ہو رہی تھی میرے اسکول کے پہلے تین سال کی اور مس ڈی سوزا کی۔ مس ڈی سوزا اپنے گھنے سیاہ بالوں کو سمیٹ کر بڑے سلیقہ سے ان کا جوڑا باندھتیں۔ اس جوڑے میں کبھی کبھار ایک گلاب کا پھول بھی ہوتا جو کلاس کی کسی لڑکی کی جانب سے دیا ہوتا تھا۔ میرا بھی بہت دل چاہتا تھا کہ میرے گھر میں گلاب کا پودا ہو اس میں سے میں ایک گلاب توڑ کر مس کو دوں اور وہ اسے اپنے جوڑے میں لگا لیں۔ اماں نے گھر کی کیاری میں موتیا کا پودا لگا رکھا تھا اور جب اس میں پھول کھلے تو میں نے اماں سے پوچھ کر ایک پھول صبح سویرے توڑ کر مس ڈی سوزا کے لئے لے گیا۔ سفید موتیا کا پھول ننھی سی ٹہنی اور ٹہنی سے جڑے سبز پتے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے میرے گال تھتھپائے اور بولیں ”اوہ یہ تو میرا پسندیدہ پھول ہے“ اور ایک پن کی مدد سے جوڑا میں ٹانگ لیا۔ اس دن میں بہت خوش تھا۔ مجھے توجہ ملی۔ اور پھر جب بھی موتیا کھلتا میں ایک پھول ضرور اپنی مس کے لئے لے جاتا۔ آج بھی اس عمر میں بھی جب کہیں موتیا کا پھول دیکھتا ہوں تو اس پھول میں مس ڈی سوزا کا مہربان چہرا دکھائی دیتا ہے۔

ہماری کلاس میں بیس کے قریب بچے تھے۔ میں درمیانے درجے کا اسٹوڈنٹ تھا۔ کبھی دسویں پوزیشن کبھی بارہویں۔ اماں خوشی خوشی ہر آئے گئے کو بتاتیں۔ باجی مجھے ہوم ورک کرنے مں مدد کرتی اور میں باآسانی پڑھائی کے مراحل طے کرتا رہا۔ مس ڈی سوزا ہمیں انگلش پویئمز یاد کراتیں جو مجھے اب بھی یاد ہیں۔ ٹوینکل ٹوینکل لٹل اسٹار، جیک اینڈ جل، ہمٹی ڈمپٹی اور جیک ٹار سیلر مین۔ ہر صبح مس کلاس میں حاضری کا رجسٹر اور چاک لے کر اندر آتیں اور سب بچے کھڑے ہو کر کورس کے انداز میں ”گڈ مورنینگ مس“ کہتے۔

”گڈ مورنینگ چلڈرن۔ پلیز سٹ“ وہ جواب دیتیں۔

ہم ایک بار پھر کورس میں کہتے ”تھینک یو مس“

اپنی ٹیچر کی توجہ ملنے کے بعد مجھ میں خوداعتمادی آگئی۔ گریڈز بھی بڑھ گئے۔ میں پورا دل لگا کر ہوم ورک کرتا۔ مس ہمیں سارے ہی مضامین پڑھاتیں۔ انگلش، میتھس، سوکس اور ڈرائینگ۔ بس اردو اور اسلامیات کے لئے ایک اور مس آتیں۔ میرا وقت اسکول میں بہت اچھا گزرتا تھا۔ اماں لنچ میں کبھی سموسے کبھی پکوڑے رکھ دیتیں اور میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا۔ میرے اچھے دوست بھی بن گئے۔ بہت اچھا وقت تھا وہ۔ بس بہت جلدی گزر گیا۔ میری خوشیوں کے دن تمام ہوئے۔ ہم چوتھی کلاس میں پہنچ گئے

جنابہ میڈم صاحبہ چوتھی کلاس کا وہ پہلا دن آپ کو تو یاد نہیں ہوگا۔ لیکن مجھے نہیں بھولتا۔ اس دن بھی میرے ہاتھ میں موتیا کا پھول تھا سبز پتوں کے ساتھ جو میں مس کو دینے کے لئے بے تاب تھا۔ لیکن دروازے سے سر جمیل اندر داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں حاضری کا رجسٹر اور چاک تھا۔ میرا دل ڈوب گیا۔ پھر بھی سوچا شاید آج مس بیمار ہی سر جمیل کے ساتھ میڈم آپ بھی تھیں۔ اور آپ نے یہ خبر سنائی کہ اس سال ہمارے کلاس ٹیچر سر جمیل ہوں گے ۔ اور یہ بھی کہا کہ مس ڈی سوزا اسکول چھوڑ چکی ہیں۔ میں نے ہاتھ میں تھاما پھول مسل ڈالا۔ آپ تو وہ خبر سنا کر چلی گیں اور میری دنیا بکھر گئی۔ سر جمیل نے کہا کہ سب بچے ایک ایک کر کے اپنا تعارف کروایں۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایں۔ میرا سانس جیسے رک گیا ہو۔ میں کیا بتاوں گا؟ میرے گھر کے حالات نے مجھے بہت حساس بنا دیا تھا اور میں اس بارے میں بات کرنے سے گھبراتا تھا۔ میں اسی گھبراہٹ میں سب سے پیچھے والی بنچ پر جا بیٹھا یہ سوچ کر کہ شاید میری باری آنے سے پہلے ہی گھنٹی بج جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو۔ میری باری آ گئی۔ میں لرزتی ٹانگوں سے کھڑا ہوا۔

” میرا نام فیضان علی ہے“

”اور؟ “ سر جمیل نے عینک کے پیچھے سے گھورتے ہوئے پوچھا۔ میں چپ رہا۔

”اور کون ہے تمہارے گھر میں؟ “ وہ اب غضب ناک ہوئے جا رہے تھے۔

” میں، اماں اور باجی“ میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔

” ابا نہیں ہیں تمہارے“؟ ان کے لہجے میں کوئی نرمی نہ آئی۔

” جی وہ گم ہو گئے ہیں۔ “ میرے نیم مردہ وجود سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔ اور پوری کلاس ہنسنے لگی۔ اور سب سے بلند قہقہ سر جمیل کا تھا۔ میرا دل چاہا اس وقت کہ میں مر ہی جاوں۔ میری ذلت ابھی پورے عروج کو نہ پہنچی تھی۔ سر جمیل کا نیا سوال آیا۔

” اماں کام کرتی ہیں کیا؟ “

میں نے صرف سر ہلایا۔

”کیا کام کرتی ہیں؟ “

” ان کی اماں ماسی ہیں“

میرے ہی محلہ کی ایک لڑکی نے جواب دیا۔ میں مجرم بنا کھڑا رہا۔ بچے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس رہے تھے اور جمیل سر اس ساری صورت حال سے پوری طرح محظوظ ہوتے نظر آ رہے تھے۔ میں سہہ نہ سکا۔

”آپ بہت گندے ہیں۔ آپ سب بہت گندے ہیں“ میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوری آواز سے کہا۔ سر جمیل اپنا فٹا اٹھائے میرے قریب آئے۔ ”ہاتھ سامنے کرو“ ان کی کرخت آواز نے مجھے لرزا دیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ پھیلا دیے۔ اور انہون نے فٹا پوری طاقت سے باری باری میرے دونوں ہاتھوں پر مارا۔ میری چیخ نکل گئی۔ جسمانی تکلیف سے زیادہ مجھے اپنی ذلت پر رونا آ رہا تھا۔ اور میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا۔

میری چیخیں پورے اسکول میں گونج اٹھیں اور میڈم آپ کے کانوں تک بھی پہنچیں۔ آپ سینڈل کی ایڑیاں بجاتی ہماری کلاس میں داخل ہویں۔ سر جمیل آپ کی طرف لپکے اور آپ کو لے کر کلاس کے باہر جا کھڑے ہوئے۔ ضرور میرے ہی بارے میں بات کی ہوگی۔ آپ میڈم غضبناک چہرہ لئے سر جمیل کے ساتھ آیں۔

” بہت بدتمیز ہو گئے ہو تم۔ جی چاہ رہا ہے تمہارے کان پکڑ کر اسکول سے باہر کردوں۔ “ میری ذلت میں جو کمی رہ گئی تھی میڈم وہ آپ نے پوری کردی۔ آپ نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں کہ ہوا کیا تھا۔ سر جمیل کی بات سن کر مجھے مجرم ٹھہرا دیا گیا۔

” کیوں بدتمیزی کی تم نے؟ بولو؟ “

” میڈم۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ “ میں ہکلایا۔ اور اس دن سے لے کر آج تک یہ ہکلاہٹ میرا ساتھ دے رہی ہے۔ میں اپنی صفائی میں شرم اور غم کے مارے کچھ کہہ بھی نہ سکا۔

اس دن کے بعد سب کچھ بگڑ گیا۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔ آپ کو دیکھتے ہی میرے ہاتھوں میں پسینہ آ جاتا۔ میرا دل زور سے دھڑکتا اورزبان لڑکھڑانے لگتی۔ آپ کے سینڈل کی ٹک ٹک میرے دل میں دھمکنے لگتی۔ آپ بھی خونخوار نظروں سے مجھے دیکھتیں۔ اور میں نے زندگی میں پہلی بار نفرت کرنا سیکھا۔

اس کے بعد میں آخری بنچ پر بٹھادیا گیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

میں کھیلوں میں اچھا تھا۔ تیز دوڑتا تھا۔ گیمز کے ٹیچر سر رانا ویسے تو بہت سخت تھے لیکن مجھے اچھے لگتے تھے۔ وہ مجھے ہمیشہ شاباش دیتے۔ اسکول میں سلانہ اسورٹس کا دن منایا جا رہا تھا تو انہوں نے مجھے سو میٹر کی ریس میں حصہ لینے کو کہا اور میرے ساتھ پریکٹس بھی کرواتے رہے۔ میں اپنے ساتھ کے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیتا۔ فایئنل لسٹ جب بنی تو میرا نام اس میں نہیں تھا۔ سر رانا نے آنکھیں چراتے ہوئے مجھے بتایا کہ میڈم نے میرا نام اپروو نہیں کیا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ لسٹ میں سب لڑکے اچھے گھروں سے تھے۔

آٹھویں میں تھے تو اسکول میں تقریری مقابلہ ہونے جا رہا تھا۔ موضوع تھا۔ ”آزادی اور امن“ ہماری اردو کی مس نے ہمیں بھی لکھنے کو کہا۔ میں نے دل و جان لگا کر ایک مضمون لکھا اور اپنی مس کو دیا۔ وہ پڑھ کر بہت حیران ہویں کہ میں نے اتنا اچھا کیسے لکھ لیا۔ اس دن میں بہت خوش ہوا تھا۔ دو دن بعد کلاس کے بعد اردو کی مس نے مجھے روکا میرا مضمون ان کے ہاتھ میں تھا۔ ”فیضان تم نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں نے میڈم کو بھی دکھایا“ میں ابھی خوشی سے بے قابو ہونے کو ہی تھا کہ وہ بولیں۔

” میڈم کا کہنا ہے ہے کہ تم یہ تقریر نازنین کو دے دو۔ “

نازنین میری کلاس کی سب سے امیر لڑکی تھی۔

” تمہاری تقریر نازنین پڑھ لے گی۔ دیکھو نا تم تو ویسے بھی ہکلاتے ہو“

میں نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لے کر ٹکڑے کر کے ڈسٹ بن میں ڈال دیے۔ اس دن میڈم آپ کے ہاتھوں میری شخصیت کے بھی ٹکڑے ہوئے۔

آٹھویں جماعت کے آخر میں بچوں کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ نویں دسویں میں وہ سایئنس پڑھیں گے یا آرٹس۔ لڑکیوں کے لئے ہوم ایکنامکس کی چوائس بھی تھی۔ مجھے سایئں س کا شوق تھا۔ میں نے اپنے فارم میں سایئنس پر ہی مارک لگایا۔ تو میڈم صاحبہ آپ نے میری ماں کو بلا بھیجا۔

” تمہارا لڑکا سایئنس پڑھنا چاہتا ہے“ لہجے میں حقارت تھی۔

اماں نے سر ہلا دیا۔

” کیا کرے گا یہ سایئنس پڑھ کے؟ ڈاکٹر بنانا ہے اسے“؟

میری کم تعلیم یافتہ ماں اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ اس کی اور میری بے عزتی ہو رہی ہے۔

” بچہ کا شوق ہے میڈم۔ “

” اسے آرٹس پڑھنے دو۔ بی اے کرے اور کہیں نوکری کر لے“

اماں نے سر جھکا لیا۔ میرا سر تو پہلے ہی جھکا ہوا تھا۔

” یہ پڑھائی میں کمزور ہے۔ نمبر بھی اس کے اچھے نہیں آتے۔ سائنس میں بہت محنت لگتی ہے۔ یہ محنت نہیں کرتا۔ کسی کھیل کسی ایکٹیویٹی میں بھی حصہ نہیں لیتا۔ ایک دم ڈل ہے۔ میٹرک کر لے تو شکر کرنا“

میٹرک تو میں نے کرلیا۔ اور سب کو حیران بھی کیا۔ یہ بورڈ کے امتحانات تھے۔ میڈم نصرت جبین کیا آپ کو علم ہوا کہ میں نے اے گریڈ لیا تھا؟

کالج میں زندگی بالکل بدل گئی۔ میں نے اسی کالج میں داخلہ لیا جس میں اماں کی کنٹین تھی۔ سایئنس سے دلچسپی کی وجہ سے میں نے نفسیات کا انتخاب کیا۔ اس کے ساتھ پولیٹیکل سایں س اور انگلش لٹریچر۔ تینوں مضامین میری پسند کے تھے اور میں باآسانی ان میں عبور حاصل کرتا گیا۔ باجی اور میں نے محلے کے بچوں کو گھر پر ٹیوشن دینا شروع کر دیا۔ اس سے کچھ اضافی آمدنی ہونے لگی۔

ایک دن محلے کی ایک خاتون اماں کے پاس اخبار لیے آیں۔

” دیکھو یہ تصویر۔ یہ چنو کے ابا لگ رہے ہیں“ اخبار میں ایدھی سینٹر کی طرف سے اشتہار تھا کی اس شخص کا ذہنی توازان تھیک نہیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ کوئی انہیں پہچانتا ہے؟ اماں نے اسی وقت چادر اوڑھی اور مجھے لے کر رکشے میں سوار ایدھی پہنچیں۔ وہ ابا ہی تھے۔ گم سم چپ چاپ کسی اور ہی دنیا میں۔ نہ مجھے پہچانا نہ اماں کو۔ ہم ابا کو لے کر گھر آ گئے۔ لیکن انہیں سنبھالنا دشوار تھا۔ بغیر بتائے گھر سے نکل جاتے میں گلیوں گلیوں انہیں ڈھونڈتا پھرتا ایک دن وہ گھر سے نکلے اور سڑک پر چلتی ایک بس کے نیچے آ گئے۔ اماں نے اپنا آخری چھلا بیچ کر کفن دفن کیا۔ میں نے تلخی سے سوچا کہ ابا وہیں ایدھی سینٹر میں ہی مر جاتے اماں کو کفن دفن تو نہ کرنا پڑٹا۔

باجی کے لیے محلے سے ہی ایک رشتہ آ گیا۔ جیسے تیسے انہیں رخصت کیا۔ ان کے میاں کا قطر کا ویزا لگ گیا۔ جلد ہی وہ بھی چلی گیں۔ سال بھر بعد ملنے آیں تو ان کی گود میں گول مٹول بیٹا، کلایوں میں سونے کی چوڑیاں، گلے میں موٹی سی زنجیر اور ہونٹوں پر بھرپور مسکراہٹ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ وہ معاشی اور جذباتی طور پر مضبوط اور محکم ہیں۔

انٹر کے بعد میں نے یونیورسٹی کا رخ کیا اور بی اے آنرز میں داخلہ لیا۔ نفسیات میرا میجر تھا۔ میڈم صاحبہ میں نے ماسٹرز بھی کیا۔ ٹاپ پوزیشن لی، میڈل ملا اور وظیفہ بھی۔

اسی دوران میں اور اماں بھی زندگی کی گاڑی چلاتے رہے۔ میں بڑے بچوں کی ٹیوشنز لیتا رہا۔ اماں اب کمزور ہو گئی تھیں ان سے اتنا کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ باجی بھی اب نہیں تھیں۔ لیکن میں نے اماں کو کام کرنے سے منع نہیں کیا۔ میں جانتا تھا کہ اگر وہ بیٹھ گیں تو بالکل ڈھ جایں گیں۔ وہ اپنے کام میں فخر محسوس کرتی تھیں۔ اور مجھے بھی اس کا غرور تھا کہ میری ماں ایک محنت کش ہے۔ میں انہیں کام سے روک کر انہیں یہ احساس نہیں دلانے چاہتا تھا کہ اب بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے تو اسے ماں کے اس کام سے ندامت ہوتی ہے۔ لیکن میڈم آپ اور سر جمیل جیسے لوگ محنت کی عظمت کو کیا جانیں۔

اماں نے آخری وقت تک کام کیا۔ ایک دن چکرا کر گریں۔ میں اسپتال لے گیا۔ وہیں بے ہوشی کے عالم میں چپ چاپ دنیا سے گزر گیں۔

میں نے آسٹریلیا میں نفسیات پر ریسرچ کام کے لئے اپلائی کیا۔ میرا ویزا آگیا۔ میں نے اپنا کوارٹر بیچا۔ بہن کو اس کا حصہ دیا۔ باقی رقم سے میں نے ٹکٹ لیا اور آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی کے ریسرچ پروگرام میں شامل ہو گیا۔ میں بچوں کی نفسیات پر اثرانداز اساتذہ کے رویے پر کام کرتا رہا۔ میری تھیسیس منظور ہوئی اور میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ گیا۔ شادی کی بچے ہوئے، گھر بھی خرید لیا اور باغیچے میں موتیا کا پودا لگایا۔ جب اس میں پھول آتے ہیں میں اندر سے کھل جاتا ہوں۔

میری ہکلاہٹ اب بھی میرے ساتھ ہے۔ اونچی ایڑی کے جوتوں کی ٹک ٹک سن کر اب بھی میری ہتھیلیاں بھیگ جاتی ہیں۔ کوئی زور سے قہقہ لگائے تو سر جمیل کی شکل میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور میرا دل ڈوبنے سا لگتا ہے۔ اسپیچ تھراپی سے اتنا افاقہ ضرور ہوا کہ اب میں نے اس مشکل کا حل نکلا لیا۔ جہاں الفاظ اٹکنے لگتے ہیں وہاں میں چند لمحوں کا وقفہ لے لیتا ہوں۔ سننے والے کو لگتا ہے کہ میں کچھ سوچ رہا ہوں۔

چند سال پہلے پاکستان جانا ہوا۔ اپنا پرانا اسکول دیکھنے اور آپ سے ملنا چاہا۔ پتہ لگا اسکول کو قومیا لیا گیا۔ آپ کچھ عرصہ وہاں پڑھاتی رہیں پھر آپ کو سبکدوش کردیا گیا۔ میڈم صاحبہ آپ سے یہ سب کہنے کی خواہش دل میں رہ گئی۔

(چند سال پہلے جینیوا میں ایک سمینار ہوا تھا۔ جس میں یو۔ این ایچ۔ سی آر، یونیسیف اور سیو دا چلڈرن سے لوگ آئے تھے۔ میں بھی شریک ہوئی۔ کانفرنس کے بعد ورک شاپ تھی۔ میرے گروپ میں ایک صاحب تھے نام سے لگا پاکستانی ہیں۔ اور وہ پاکستانی ہی تھے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ انہوں نے بچوں کی نفسیات پر تقریر بھی کی۔ ہم ورک شاپ کے بعد کافی دیر تک گفتگو بھی کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی تو میں نے کہا آپ یہ سب لکھیں۔ لوگوں کو ان باتوں کا علم ہونا چاہیے۔ وہ ہنس کر بولے ”لکھنا لکھانا تو آپ کا کام ہے۔ میں نے سنا دیا آپ لکھ لیں۔ میری طرف سے اجازت ہے“ یہ آپ بیتی ڈاکٹر فیضان علی کی ہے۔ میں نے اسے کہانی کی شکل دی ہے۔ سارے نام بدل دیے سوائے ایک کے۔ وہ ایک نام کونسا ہے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے )۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments