متنازع شہریت بل اور میوات کا ردِ عمل


بھارت میں سرگرم ہندو تنظیم آر ایس ایس اور حکمران جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ آسام میں لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن آکر بس گئے ہیں۔ دراصل آسام بنگلہ دیش سے متصلہ ریاست ہے وہاں تقسیمِ ہند کے وقت اور بعد میں لاکھوں بنگالی ہندو اور مسلمان ہجرت کر کے آئیں ہیں۔ اعدادو شمارکے مطابق ان میں 70 لاکھ مسلمان اور 50 لاکھ ہندو شامل ہیں۔ ان غیر قانونی تارکین ِ وطن کے خلاف بہت سی جماعتوں کی مسلسل پر تشدد تحریک کے بعد مرکزی حکومت، ریاستی اداروں، علاقائی تنظیموں اور طلبا تنظیموں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا کہ آسام میں 24 مارچ 1971 ءکے بعد آنے والے بنگالیوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا۔

یوں آسام میں سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق 2015 ءمیں این آر سی کا عمل شروع کر دیا گیا۔ آسام میں قانونی چھان پھٹک کے بعد 19 لاکھ لوگوں کو شہریت کی فہرست سے باہر کر دیا گیا ہے۔ ان میں قریباً 12 لاکھ ہندو تھے۔ یہ اعداد و شمار بی جے پی اور ہندو انتہا پسندوں کی توقعات کے بالکل بر عکس تھے۔ اس پر این آر سی کے عمل میں نقائص کا پروپیگنڈا کیا جانے لگا اور یوں اسے مسترد کر دیا گیا۔ لیکن این آر سی کی حتمی فہرست کا عمل جاری رہا۔

این آر سی سربراہ پرتیک ہجیلا کا کہنا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں کتنے لوگ باہر ہو جائیں گے یہ بتانا مشکل ہے۔ سول سوسائٹی اور ہیومن راٹس آرگنائزیشنز نے عندیہ دیا ہے اس عمل سے لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جسٹس عبدالباطن کھنڈکار کہتے ہیں کہ 20 لاکھ بنگالی ہندوستانی شہریت سے محروم ہوجائیں گے۔

متنازعہ شہریت بل کیا ہے؟

این آر سی بل یعنی نیشنل رجسٹر آف سیٹی زن قومی شہریتی رجسٹر بل بھارت لوک سبھا ( پارلیمنٹ) میں 2016 میں پیش کیا گیا، اس کی رو سے وہ تمام ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھسٹ جو قریبی ممالک جیسے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے اور اب بھارت میں اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے ہیں انہیں اس متنازعہ بل کی آڑ میں شہریت دینے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بل کے دائرہ کار سے دور رکھا جا رہا ہے۔

یہ بل گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ جنوری 2019 میں لوک سبھا نے اس بل کو منظور کرلیا تھا لیکن راجیہ سبھا یعنی سینٹ سے اس کے تحلیل ہو جانے کے باعث پاس نہ ہو سکا۔ بی جے پی کے صوبہ آسام کے وزیر ہمنت بسوا سرِ محفل کہتے رہے ہیں کہ اس بل سے آسام مسلم اکثریتی ریاست بننے سے بچ جائے گاکیوں کہ وادی کے بعد مسلمان سب سے زیادہ کثیر تعداد میں آسام میں آباد ہیں۔

اور اب مسلمانوں کے علاوہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو انڈین شہریت مل جائے گی جو قانونی یا غیر قانونی طور پر بھارت آئے ہوں خواہ ان کے پاس کوئی قانونی دستاویز ہو یا نہ ہو۔ آر ایس ایس نظریہ کی حامل حکومتی جماعت دراصل اس بل کی آڑ میں ہندوؤں کو شہریت دینا چاہتی ہے۔

Mahatma Gandhi leading the volunteers of the Indian National Congress during the historic march to Dandi in March, 1930. Dr. Abul Kalm Azad, frontier Gandhi Khan Abdul Gaffar Khan, Sardar Vallabhbhai Patel, Jawaharlal Nehru, Dr. Rajendra Prasad is also seen in the picture.

بھارتی آئین کا سیکولر تشخص

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بھارت کا آئین آرٹیکل 14 کے تحت ایک سیکولر تشخص کا حامل ہے، اس اعتبار سے شہریت ترمیمی قانون اور قومی شہریتی رجسٹر بل بھارت کے سیکولر آئین کو مسخ کر کے رکھ دے گا۔ مسلمان سیاست دانوں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بل آرٹیکل 14 سے متصادم ہے۔ بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ این آر سی اور سی اے اے دونوں کو ایک ساتھ نافذ کیا جائے گا، جو کہ ایک انتہائی خطرناک امر ہے۔ بی جے پی حکومت اس قانون کا اطلاق فی الحال آسام اور ازاں بعد دیگر صوبوں میں کرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر ملک بھارت میں مذہب کے نام پر امتیازی نوعیت کی قانون سازی نے بھارت کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹا دیا ہے۔

سی اے اے یعنی شہریت ترمیمی قانون کے حوالے سے مغربی بنگال کے بی جے پی کے نائب صدر نیتا جی سبھاش چندر بوس نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے، ”اگر سی اے اے 2019 کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے تو اس میں صرف ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور جین کا نام کیوں ہے؟ اس میں مسلمانوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ شفافیت ہونی چاہیے“

میوات کا ردِ عمل

ساری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ میو قوم ایک بہادر اور جانباز قوم ہے۔ میو قوم نے کسی کی غلامی قبول نہیں کی خواہ وہ اکبر بادشاہ ہو یا سفید چمڑی والے نو آبادیاتی نظام قائم کرنے والے انگریز ہوں۔ میو قوم نے اپنا قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اپنی پوری سیاسی اور اخلاقی طاقت سے این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت کی ہے۔ میوآئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کراپنی پوری افرادی قوت کے ساتھ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوسوں سے ہندو ذہنیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

علمائے کرام اور صدر مجلسِ اتحاد بین المسلمین محترم اسدالدین اویسی اس پورے معاملے کو لے کر پورے سرگرم عمل ہیں اور ان کی قیادت نے میوات تک اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دسمبر 2019 ءکے درمیانی عشرے میں میوات کے علاقے نوح میں ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ میوات سے علمائے جمیعت اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنا بھرپورکردار ادا کیا ہے۔

نوح گھاسیڑہ احتجاجی مظاہرہ:

آج کے روز 72 سال قبل جب گاندھی نے میوات کے گھاسیڑہ گاؤں کا دورہ کیا اور انہیں پاکستان نہ جانے کے بدلے خوشحالی کی ضمانت دی تھی۔ میوؤں نے اس دن 19 Dec 2019 کو میوات دیواس کے طور پر منایا ہے، میوات کے غیور نوجوانوں نے آج کے روزپرزور احتجاج کر کے ایک خاص پیغام دے دیا ہے۔ ایک انڈین انگلش اخبار ٹائمز آف انڈیا 19 Dec 2019 کی رپوٹ کے مطابق 20000 سے 25000 افراد نوح سے گھاسیڑہ تک احتجاج میں شریک ہوتے ہیں حالاں کہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

میوات کے زندہ دل نوجوان علی الصبح نوح میں جمع ہونا شروع ہو گئے پھر انہوں نے گھاسیڑہ کا رخ کیا۔ میوات وکاس سبھا کے زیرِ اہتمام اس ریلی میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلباءنے پوری قوت سے اس اینٹی سی اے اے اور این آر سی مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرین نے ”دھرم کی راج نیتی بند کرو“ یعنی مذہب کے نام پر سیاست بند کرو کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

حلقہ نوح سے کانگریسی ایم ایل اے آفتاب احمد نے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ”ہم نے ایک سیکولر ہندوستان میں جنم لیا اور اسی میں پرورش پائی۔ “ انہوں نے مزید کہا، ”سی اے اے آئین کے خلاف ہے اور شہریت کی بنیاد پیدائش ہونی چاہیے نہ کہ مذہب۔ “

دی گارڈین 21 Dec 2019 کے مطابق ہریانہ میں نوح گاؤں سے گھاسیڑہ پانچ میل تک کی جانے والی یہ واک ایک تاریخی واک تھی جس میں ہزاروں مظاہرین نے شرکت کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ انڈین پالیمنٹ سے سی اے اے کی منظوری مسلمانوں کو سیکنڈ کلاس شہری قرار دینے کے مترادف ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سرزمینِ میوات بڑے بڑے مظاہروں کی شاہد ہے لیکن یہ مظاہرہ اپنی مثال آپ ہے۔

دی ہندو، دی انڈین ایکسپریس انگلش و دیگر اخبارات میں شائع رپورٹس کے مطابق میوات میں ہونے والے مظاہروں میں شریک ہزاروں میو مظاہرین میں شدید غم و غصے کی لہر دیکھی گئی ہے۔ اور بالخصوص نوح گھاسیڑہ ریلی میں مظاہرین ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔ میو وکاس سبھا MVS کے صدر سلام الدین میو نے واضح پیغام دیا، ”ہم شہریت ثابت کرنے کے لئے اپنی دستاویزات قطعاً جمع نہیں کروائیں گے۔ “ انہوں نے کہا کہ 80 لاکھ سے زائد میو مسلمان شہریت کے حصول کے لئے اپنی دستاویزات داخل نہیں کریں گے اور میو قوم کے غیور مسلمان دہلی جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور اس قت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک کہ حکوت اس قانون کو رول بیک نہیں کر لیتی۔

میوات آر ٹی آئی منچ کے صدر راج الدین میو نے کہا، ”یہ قانون ہندو مسلم تفرقہ پھیلانے کی ایک گھناؤنی چال ہے جسے محض سیاسی مقاصد کے لئے چلا گیا ہے، ہم اسے پوری قوت سے ناکام بنا دیں گے۔ “

اس مظاہرے میں ریاض نور کے ملی نغمے ”تو میو ہے تو میو ہے، یا دھرتی کو تو دیو ہے“ نے اہلِ میوات کے جذبات کو گرما دیا۔ ادھر پاکستان کے میو اپنے ہندوستانی میو بھائیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے لئے منعمِ حقیقی سے دستِ بہ دعا ہیں کہ انہیں سرخرو فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments