اب نوکریاں ملیں گی؟


ملکی حالات سیاسی، معاشی اور موسمی تینوں خراب ہیں!

عمران خان وزیراعظم مگر کہتے ہیں گھبرانا نہیں۔ انہوں نے تسلی دی ہے کہ دو ہزار بیس ملازمتوں کا سال ہے اس میں بدعنوان عناصر بھی مشکل میں ہوں گے؟

اب اُن کی بات پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ ماضی میں انہوں نے جتنے بھی وعدے کیے سب محض وعدے تھے اس طرح انہوں نے جودعوے کیے وہ بھی دعوے ثابت ہوئے۔ ابھی تک ان کی حکومت بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ نوکریاں بھی نہیں دی جا سکیں۔ ان کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری صاف کہہ چکے ہیں کہ حکومت نوکریاں نہیں دے سکتی اس کے پاس وسائل نہیں ہیں مگر کپتان کہتے ہیں کہ اگلے برس ملازمتیں دی جائیں گی۔

ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف وہ ملازمین کو زبردستی ریٹائر کریں گے اور دوسری جانب خالی جگہیں پر کر دی جائیں گی وگرنہ معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ نوکریوں کے انبار لگ سکیں۔ اگرچہ ٹیکس در ٹیکس لگائے جا رہے ہیں تا کہ قومی خزانہ بھر سکے مگر جو گزشتہ ادوار میں قرضے بھاری لیے گئے ہیں انہیں بھی واپس لوٹانا ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے آئندہ اقساط بھی وصول کرنا ہے بصورت دیگر معاملہ بگڑ سکتا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان وزیراعظم کا بیان، بیان ہی ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور اگر خدانخواستہ جنگ مابین پاک بھارت ہوتی ہے یا کوئی بہت بڑی جھڑپ بھی ہو جاتی ہے تو معیشت مزید خراب ہو نے کا امکان ہے ایسے میں نوکریاں کیا دی جائیں گی پہلے والی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں؟

اس کے باوجود گھبرانا نہیں۔ گھبرانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ گھبرانے سے بھی در پیش مشکلات کا خاتمہ ممکن نہیں نظر آتا کیونکہ موجودہ نظام زر و جاگیرداری نے بری طرح سے عوام کے گرد شکنجہ کس رکھا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مزید کسا جانے والا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے صورت حال مجموعی خراب ہونے جا رہی ہے لہٰذا عوام شدید ردعمل ظاہر کریں گے اس پر حکومت جو سرمایہ داری اور جاگیرداریت کا امتزاج ہے وہ عوامی احتجاجوں کو سخت ناپسند کرتی ہے اسے کسی صورت وارے میں نہیں کہ لوگ سڑکوں پر آئیں اور امور مملکت کو متاثر کریں لہٰذا نظر آ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں آہنی ہاتھ حرکت میں آئے گا؟

”جاوید خیالوی کے مطابق بھی بالکل اس وقت ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ حالات جو گزشتہ پالیسیوں کی بنا پر پیدا ہوئے ہیں، ان سے پریشان ہو گئے تو مستقبل میں یہ اور گھمبیر ہو جائیں گے جو ہمارے بڑھتے قدموں کو روک دیں گے جبکہ صورت حال بتدریج ٹھیک ہونے کا قوی امکان ہے ہاں البتہ خلاف معمول کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو پھر بہتری آنے میں کچھ وت لگ سکتا ہے“۔

بہرحال آئی ایم ایف کی شرائط پر آنکھیں کھلی رکھ کر بھی اور آنکھیں بند کر کے بھی عمل درآمد ہو رہا ہے۔ جب میں یہ سطور رقم کر رہا ہوں بجلی کی قیمت میں ایک روپے چھپن پیسے اضافہ کر دیاگیا ہے۔ اضافے سے متعلق کچھ روز پہلے آئی ایم ایف کے کسی عہدیدار نے واضح طور سے کہا تھا اسی طرح گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔ پٹرول کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے جب کسی حکومتی عہدیدار سے سوال کیا جاتا ہے کہ جناب عالی!

یہ سب کیوں ہو رہا ہے تو وہ منہ چبا کر کے کہتا ہے کہ جی، ہم مجبور ہیں عالمی مالیاتی اداروں نے ہمیں شرائط کی زنجیر سے باندھ رکھا ہے۔ تو پھر آپ عوام سے وعدے کیوں کرتے ہیں کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا مگر جب اقتدار ملتا ہے تو سو طرح کے عذر پیش کر دیتے ہیں۔ دیکھیں یہ انوکھی بات نہیں ہم سے پہلے بھی تو ایسا کرتے رہے ہیں انہیں بھی تو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ ٹھہرایا جاتا ہے مگر آپ نے تو اس نظام کو تبدیل کرنے کو کہا تھا وہ وعدہ کہاں گیا؟

دھیرے دھیرے سب بدل جائے گا اس حکومت کو اقتدار میں رہنے دیا گیا تو امید واثق ہے عمران خان اپنے ویژن کو عملی جامہ پہنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہ بھی ہے کہ انہیں سکون سے کام کرنے دیا جائے مگر حزب اختلاف نے تو تہیہ کر لیا ہے کہ حکومت کو آگے نہیں بڑھنے دینا۔ وہ آئے روز ہنگامہ آرائی پر اتری دکھائی دیتی ہے جبکہ اس کا اصل مسئلہ حل ہو چکا ہے کچھ جو باقی رہ گیا ہے وہ بھی حل ہونے والا ہے؟

اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اب احتساب بس یہی ہو گا کہ کہ ادھر پکڑتے جاؤ ادھر چھوڑتے جاؤ۔ ویسے نکمے وزیر مشیر وزیراعظم کی کابینہ میں شامل ہو گئے ہیں جو بولتے تو بہت اونچا ہیں مگر کام ٹکے کا نہیں کرتے۔ اسی لیے اب تک احتسابی عمل مؤثر طور سے جاری نہیں ہو سکا۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ چھوٹنے والوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا رہا ہے درست نہیں کیونکہ وہ میرٹ پر آزاد ہوئے ہیں، پلی بارگین کی بنیاد پر نہیں اگر یہ بات سچ نہیں ہے تو کیوں سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں اور وہ کیوں عدالتوں کی ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت نہیں اگر ہوں تو کوئی رہا نہ ہو لہٰذا احتساب کی ڈگڈگی بجانا مقصود ہے۔

لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مگر اب لوگ اس کی طرف توجہ مبذول نہیں کر رہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت میں اہل لوگوں کی کمی ہے جو جذباتی نعرے لگانے کے تو قابل ہیں مگر صورت حال کو قابو میں کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا عوام کی غالب اکثریت پی ٹی آئی سے مایوس ہو چکی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ منظر پر موجود ایک دونوجوانوں سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں سے متاثر ہے۔

عوام انہیں بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے بڑوں نے یہاں کیا کیا ”کارنامے“ سر انجام دیے اب دوبارہ وہ تازہ چہروں کو سامنے لا کر ملک کا نظام سنبھالنا چاہتے ہیں جو کہ آسان نہیں ہاں اگر انہوں نے کچھ کرنا ہے اور وہ سنجیدہ ہیں تو پہلے اپنے الزامات کے جواب دیں بلکہ ان کے پاس آج جتنی دولت ہے سرکار کے ہاتھ میں دے دیں تا کہ غربت کا خاتمہ کر کے ایک خوشحال پاکستان کا خواب پورا کیا جا سکے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتے کہ انہیں عیش و آرام کی زندگی بڑی عزیز ہے ڈالروں کی مہک میں وہ سانس لیتے ہیں اور اپنے خون کو گرماتے ہیں بات چلی تھی نوکریوں سے تو یہی کہوں گا کہ حکومت کو اب یہ وعدہ کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے اس میں کوئی کشش باقی نہیں رہی عوام پوری طرح حالات و واقعات سے آگاہ ہیں انہیں اس امر کا مکمل ادراک ہے کہ حکمرانوں کے بس میں نہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں ملازمتیں دے سکیں کیونکہ آبادی تیزی سے بڑے رہی ہے اور وسائل ناپید ہیں لہٰذا اسے کوئی نیا وعدہ تخلیق کرنا چاہیے جو حقیقت کے قریب تر ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments