بیانیے کی جنگ


\"javed-malik2\"  خبر کوئی بھی ہو، بیانیہ اس کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔ سرل المیڈا کی خبر پر بھی دو گروہوں میں بٹی اس قوم کو اپنی فکری محاذ آرائی کو کچھ اور بڑھاوا دینے کا مو قع ملا۔ جدید جمہوریتوں میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ظہور بھی ریپبلکن پارٹی میں دائیں بازو کی جانب انتہائی جھکاؤ کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے اور ڈیموکریٹس عالباً اس افراط و تفریط سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ثابت ہوں گے جس کی نشاندہی میرے استاد اور بل کلنٹن کی کابینہ کے سابق لیبر سیکرٹری رابرٹ رائیک نے چند برس پہلے اپنی ایک کتاب میں کی تھی کہ بالآخر بیانیے کی بنیاد پر ڈیموکریٹس امریکہ میں ایک مسلسل سیاسی عمل سے بالآخر ایک حتمی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن پاکستان میں ایک مسلسل مکالمے کا عدم وجود لبرلز اور دائیں بازو والوں کو دو انتہاؤں میں لے کر چلا گیا ہے اور غالباً اب دانشورانہ سطح پر ہم شاید بہت کم باتوں پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ذہنی مشق میں قومی سلامتی جیسے سنجیدہ امور یقینا شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے قومی امور پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز کیسے ہو؟

مختلف فکری گروہوں میں ایک Cult (مسلک) کے طور پر زندگی گزارے چلے جانا غالباً بے حد آسان ہے۔ اسی لئے تو پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر اپنے اپنے مؤقف پر اڑے رہنے والے افراط و تفریط کیلئے مشہور افراد کو ہر ٹاک شو بخوشی بلاتا ہے۔ اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے اوریا مقبول جان عام طور پر ایک معتدل افسر شاہی کا نمائندہ رہنے کے باوجود اب اپنے آپ کو انتہائی مذہبی طبقات کے ترجمان کے طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ میڈیا نے ان کی انتہا پسندی کو خوب نوازا ہے اور ان کے لئے ایک مارکیٹ تلاش کر رہی ہے۔ عمر کے اس حصے میں اس پذیرائی کو وہ اب ہاتھ سے نہ جانے دیں گے اور آپ غالباً ان کو مزید انتہا پسندی کی طرف مائل دیکھیں گے بالکل اسی طرح لاہور کے لبرل حلقوں نے بھی اپنے لئے ایک الگ طرح کی مارکیٹ تلاش کر لی ہے چنانچہ لٹریچر فیسٹول یا انگریزی اخبارات یا پھر ان کا بین الاقوامی تقریری دائرہ جو ان کو لندن٬ نیو یارک اور واشنگٹن کیلئے جاتاہے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا اب ان کیلئے بھی آسان کہاں ہے خصوصاً اس وقت بھی جب آپ اپنے آپ کو بالکل درست سمجھتے ہوں۔

ایسے میں مجھے سکون صرف ایف ۔سی کالج کے ممتاز دانشور اور پروفیسر سعید الرحمان کی قربت میں ہی ملتا ہے جو کہ ایک جانے مانے Post Modernist ہیں اور حقیقت کی حتمی تلاش کے بجائے مانی ہوئی حقیقتوں پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں مذہبی لوگوں سے تو ان کی بنتی نہیں لیکن لبرل بھی ان کی قربت میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید کسی بھی بات پر حتمی اصرار سے سخت چڑتے ہیں۔ ہم جیسے پالیسی کے نام بر متشدد حد تک گئے ہوئے لکھاریوں کے لئے ان کے پاس بہت علاج ہیں اگر میرا بس چلے تو میں فرید پراچہ ٬ اوریا مقبول جان کے ساتھ ساتھ خالد احمد اور عاصمہ جہانگیر کو ان کی منگل کو ہونے والی Translation Studies کی کلاس میں بھیج دوں جہاں وہ لوگوں کے بنے بنائے خیالات کو خوب جھنجھوڑ تے ہیں لیکن مبنی بر انصاف بات یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقات کو اپنی فکر پر نظر ڈالنے کی زیادہ ضرورت اس لئے ہے کہ ایک پورا گروہ ان سے ٹوٹ کر مسلح جدوجہد ہی کو حق اور ہدایت کا سچا راستہ سمجھتا ہے اور اس نے پچھلے چند برسوں میں ہماری ریاست کی چولیں ہلا دیں ہیں

سرل المیڈ اکے مسئلے پر بھی اس فکری افراط و تفریط نے ہمارے مکالمے کی صلاحیت کی کمزوری کو ایک دفعہ پھر عیاں کر دیا ہے پاکستانی لبرلز بحد خوش تھے کہ سویلین حکومت نے عسکری اداروں کی کمزوریوں کو پوری دنیا میں نمایاں کر دیا ہے اور پاکستانی دائیں بازو نے بلا سوچے سمجھے وزیر اعظم کے رفقا پر غداری تک کے الفاظ چسپاں کر دیے بہر حال اصل مدعا یہ ضرور ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پچھلے برس سے ہمیں مزید تنہائی کی طرف لے کر جا رہی ہے اور اس کے پیچھے یقینا حکومت کے سول اور ملٹری اداروں کے بیچ ارتباط اور ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ پالیسی سازی کے اس خلا کو ایک طاقتور اور تجربہ کار وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو پوراکرنا ہوتا ہے پھر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور دیگر معاونین کا کام ہے کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے مین ان کی امداد کریں۔ یقینا آپ میری دانشورانہ معصومیت پر مسکرا رہے ہوں گے لیکن اگر آپ پاکستان کے دو سابق وزرائے خارجہ حنا ربانی کھر اور خورشید قصوری کو غور سے سنیں تو وہ یہ باور کرواتے ہیں کہ مسلسل محنت کے بعد وہ اپنے ادوار میں ملٹری اداروں سے اپنے بات منواتے ہیں اور ایک سو یلین نقطہ نظر کو آگے بڑھانے میں بہت حد تک کامیاب رہے تھے۔ پاکستان میں حکومتی امور پر لکھنے والے اکثر احباب کو حکومت چلانے یا اس میں رہنے کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں ہے چنانچہ ان کیلئے اکثر یہ مشکل رہتی ہے کہ وہ جان پائیں کہ پالیسی سازی (چائے وہ فارن پالیسی ہو یا کوئی اور میدان ) ایک جامع عمل کا نام نہیں ہے بلکہ ہر روز اس کو نئی اطلاعات٬ صلاحیت٬ قوت عمل اور ذاتی لیڈر شپ جیسے عوامل تبدیل کرتے ہیں۔ ایک قابل وزیر خارجہ اور ایک فعال وزیر دفاع کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ سویلین انتظامیہ ریاست کی ایک اہم ترین فریضہ میں خود کو شامل کرنے سے گریزاں ہے دوسری طرف میڈیا میں ہر قیمت پر حکومتی مؤقف کے نہ سمجھے جانے کی روش بھی درست نہیں ہے۔ بحث کو سرل المیڈا تک محدود رکھنے کے بجائے اصل مدعا پر مرتکز کرنا چاہیے کہ کیسے پاکستان کو فارن پالیسی کے محاذ پر زیادہ سے زیادہ کامیابیاں ملیں۔ تاہم اس سے پہلے ایک سنجیدہ بحث ہی ہمیں اس ہیجان انگیز ماحول سے واپس لا سکتی ہے۔ اپنی بات پر اصرار سے۔۔۔۔ کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔

جاوید احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جاوید احمد ملک

جاوید احمد ملک سماجی ترقی اور انداز حکمرانی پر ایک کتاب Transforming Villages کے مصنف ہیں

javed-ahmad-malik has 6 posts and counting.See all posts by javed-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments