رازِ کامیابی


انسان غلطی کا پتلا اور سدا کا خطاکار ہے، جب پیر اٹھاتا ہے تو واحد قدم راست کے ساتھ طوفان خطاء چارسو پھیلا دیتا ہے۔ اس قسم کے عمل و مکافات عمل میں انسان کے لئے سوچنے لائق بہت کچھ ہے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رح فرماتے ہے کہ بڑے نتائج اخذ کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آسمان پھوٹ پڑے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو، آتش فیشاں نکل آئیں ہر آن بے اطمینانی چھا جائے، بلکہ بہت مختصر و عام سے واقعہ پیش آنے کی مد میں بھی غیرمحدود نتائج کا حصول ممکن ہے۔

سو اگر انسان نظر دوڑائے تو اس کی پیروں کو قید کرنے کے لئے زنجیریں ہزاروں تیار ہیں، جو کبھی کبھار ہم جنس ہوتے ہیں کبھی جنسِ مخالف، کبھی جاندار ہوتے ہیں کبھی بے جان، زیست زندگی میں کبھی انسیت باعث طوق بن جاتی ہے کبھی عداوت، کبھی حسد آڑے آجاتا ہے کبھی کھونے کا ڈر رکوا دیتا ہے، کبھی روایتِ عام لیل و نہار کی برقراری کے واسطے ہمارے اپنے ہمارے منصوبے سولی چڑھا دیتے ہیں تو کبھی کسی کے مفاد پر زد پڑنے کی وجہ سے روک دیے جاتے ہیں۔

غرض کسی نہ کسی طرح لاکھوں امیدوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے جب ہزاروں ارادوں کے بعد قدم اول اٹھاتے ہیں تو روک دیے جاتے ہیں، سنکڑوں آوازوں سے، ہزاروں خوف و حراس سے، لاکھوں اندیشو و وسوسوں سے، لاتعداد مصیبتوں سے۔ اور اسی طرح اس قسم کے رویوں سے ان گنت انجانے کردار پیرایہ تخیل تک میں ڈھیرے ڈال دیتے ہیں کہ پھر جب کبھی ہم قدم اٹھاتے ہیں تو وہ چیخ و پکار شروع کردیتے کہ ”نا کرو! کھو جاؤ گے! اکیلے رہ جاؤ گے! لوگ تم پر ہنسینگے! یہ کیا کر رہے ہو! “

اور ایسی ہی بے شمار آوازیں جو ہر قدم کے ساتھ کیفیت باطن خود نکالنا شروع کردیتا ہے، جس سے ہماری گئی گزری تہذیب کا بدنما چہرہ خود بخود خوب خوب واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ ابوالکلام آزاد رح کے مطابق کہ واقعہِ ادنی سے نتائجِ اعلی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ تو اگر دیکھیں تو اسی ایک کیفیت سے ہماری نفسیات، کچھ الگ و نیا کرنے والوں کے بارے میں ہمارے معاشرے کا طرز فکر و ردعمل، خصوصیات تہذیب و ثقافت، خدو خال تمدون و معاشرت غرض ہر پہلو کو بآسانی سمجھ جاسکتا ہے۔

اس طرح کی دنیا میں قدم ایک پاگل ہی اٹھا سکتا کہ جو نہ سوچتا ہے نہ کسی کی طرز فکر کا گمان کرتاہے، جو چاہا عمل سے پالیا، جو کرنا چاہا کرلیا، نہ اساسیت نہ ذہن میں ہزاروں قسم کے وساوس کا طوفان، نہ قلب میں بے چینی، نہ گردش ایام میں بے اطمینانی۔ زندگی اگر سیکھنی ہو تو پاگل سے ہی سیکھنی ہوگی کہ اللہ کی کوئی تخلیق رائیگاں نہیں ہے، اس کی ہر تخلیق میں حکمت اور اس کی ہر کُن میں سببِ زندگی ہے۔

دنیا کے تمام ان لوگوں کی داستانِ حیات پر اگر نظر دوڑائی جائے جنھوں نے اپنی زندگی سے تاریخ عالم پر اپنے نقوش چھوڑیں ہیں تو وہ اسی طرح نکل آئنگے کہ نہ انھوں نے اوروں کا سوچا نہ اُنہی کی وجہ سے روکے، بلکہ زمانے کے سمت مخالف میں دوڑے۔ انھوں نے خیالات کا اظہار کیا جب سمجھنے والے نہ ملے تو گونگے خود بن گئے لیکن سفر کو جاری رکھا۔ انھوں نے اپنے ارادوں سے اوروں کو آگاہ کرنا چاہا، جب جواب مایوس کن ملتا تو سننے سے پہلے ہی کانوں کو تالے لگا لیتے، نہ کسی کی پروا کرتے نہ کسی روکنے والے کو توجہ دیتے۔ بس چلتے جاتے اور بڑھتے جاتے۔ بجانب منزل مسلسل سفر کو مقصد بنا لیا اور نظر اندازی کو اس راہ پر روانہ ہونے کے لیے بطور سواری استعمال کیا۔

پھر دنیا کے بڑے بڑے لوگ بری طرح ناکام بھی ہوئے ہیں، وہ تن تنہا رہ گئے تھے۔ انھوں نے اپنے افکار و نظریات کے بالکل مخالف کام بھی کیے ہیں لیکن ان کی عظمت نے انھیں مرنے نہیں دیا اور ان کی قوت عملیہ نے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔

جو ہمیں کامیاب نظر آتے ہیں، وہی سارے کے سارے ناکام خود کو تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بس یہی مقام آخر ہے، بلکہ ایک مقام حقیقت کو جب وہ منزل آخری تصور کرلیتے ہیں اسی کو پانے کے بعد وہی منزل راہ میں ٹھراؤ و پڑاؤ کا ایک معمولی و عرضی مقام نظر آتا ہے اور منزل مجازی لگنے لگتا ہے۔ اس کے بعد پھر نئی منزل، پھر کوئی اور جستجو زیر نگاہ آجاتی ہے، پھر رخت سفر باندھ دیا جاتا ہے، اور پھر چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو مرنے تک آس باقی رہتی ہے اور آس کی وہ مقامِ انتہا بندہ کبھی نہیں پاتا۔

زندگی میں ایک صحیح قدم اٹھانے کے واسطے ہزاروں قدم در بدر اٹھانے ہوں گے۔ مسیحا ہندوستان موہن داس کرم چند گاندھی جن کو بعض ہندوستانی اپنی عقائد کی رو سے بھگوان کا ایک روپ تصور کرتے تھے، عدم تشدد کے دنیا کے سب سے بڑے علمبردار مانے جاتے تھے لیکن عمر آخر میں وہی گاندھی جو کہ یوں بھگوان کے روپ مانے جاتے تھے، اپنی اسی فکر کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں اور بڑے عالمی جنگوں میں بھی سب سے بڑے عالمی جنگ، جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کے ساتھ اس کے شریک کار بن جاتے ہیں۔

اور اپنی تمام عمر کے تعلیمات، نظریات و افکار اور کارناموں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اس تباہ کن خطاء کے باوجود وہ آج قاتل نہیں بلکہ ہیرو مانے جاتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں وہی کیا جو اس نے صحیح سمجھا، اور جب وہ ایسا کرنے لگا تو جمود پسند اولاد آدم کو ان کی سننا پڑی، اور آج تک ان کی زندگی کو نظر کے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔

اس لیے جب کبھی قدم اٹھانا ہوا تو بالکل نہ سوچیے، جو من میں ہو میدان میں  لے آئیں، وہ تمھیں تجربہ دیگا، تمھارے ارادے جب عمل کی صورت میں اندر سے باہر آئنگے تو باطن سے ظاہر میں آنے کی وجہ سے تمھاری نظر کے سامنے ہوں گے، اس لیے تم انھیں دیکھ پاؤ گے اور پھر ان سے کھوٹے و کھرے کو الگ کرنے کے اہل بن جاؤ گے۔ اگر اقدام سے پہلے گمان کروگے تو اوہام و وساوس میں ہی گھیرے رہ جاؤ گے اور آخر کار نفسیاتی ہونا مقدر ہو گا۔

کامیابی تم سے یہی کہتی ہے کہ ”خطاء کرو، یہی میرا راستہ ہے! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments