محمد ’شاہ‘ رنگیلا اور حریم ’شاہ‘
تاریخ کے کچھ اوراق اس لحاظ سے بھی برہنہ ہیں کہ اس نے اپنے اندر محمد شاہ رنگیلا جیسی شخصیت کو بھی جگہ دی۔ محمد شاہ رنگیلا کو تاریخ شاید سائیڈ لائن پر کر دیتی لیکن یہ اتنا دلچسپ کردار تھا کہ جیسے آج کل کوئی فلم آئٹم سانگ کے بل بوتے پر کامیاب ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح تاریخ کا مطالعہ ان جیسے کرداروں کی مدد سے خشک اور کھردرے پن کا داغ مٹا دیتا ہے۔
یہ 1739ء کی بات ہے جب نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کے مابین کرنال کے مقام پر جنگ ہوئی۔ محمد شاہ رنگیلا کی ایک لاکھ سے زائد فوج نادر شاہ کی پچپن ہزاد فوج سے ہار گئی اور پھر 12 مئی 1739ء کی شام دہلی میں سب کچھ معمول کے مطابق چل پڑا۔ دہلی کی گلی کوچوں میں چہل پہل تھی۔ غریبوں میں شربت اور طرح طرح کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ فقیروں کو بھاری بھاری رقوم عطا ہو رہی تھیں۔ آج تاریخ نے دیکھ لیا تھا کہ نادر شاہ یعنی ایرانی بادشاہ نے ہندوستانی بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو شکست دی ہے۔
رنگیلا ہاتھ باندھے ہر بات ماننے کو تیار ہے۔ یہ وہی رنگیلا ہے جب نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہو رہا تھا تو درباری بارہا کہہ رہے تھے کہ نادر شاہ حملہ آور ہو رہا ہے اور موصوف تخت پر دراز ہو کر شراب کے نشے میں مخمور کہتا ’ہنوز دہلی دور است‘ اور ہنوز نادر شاہ اُس کے محل میں موجود ہے۔ نادر شاہ نے ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو قتل کر کے تمام خزانوں پر ہاتھ صاف کیا لیکن تاریخ خشک سی لگ رہی تھی اس لئے قدرت نے رنگیلا کو سبق سکھانے کے لئے انہی طوائف کا سہارا لیا، جن کی نازکی کے سہارے محمد شاہ دربار کا نظام چلاتا تھا۔
نادر شاہ خوش تھا کہ اُس نے ہندوستان کے خزانے پا لیے لیکن رنگیلا کے طوائفوں میں سے ایک طوائف نور بائی نے نادر شاہ سے کہا کہ جو کچھ اُس نے حاصل کیا ہے وہ ’اُس‘ کے سامنے کچھ بھی نہیں جو رنگیلا کی ’پگڑی‘ میں ہے۔ نادر شاہ بعد میں پچھتانے والوں میں سے نہیں تھا، اُس نے ایک چال چلی اور رنگیلا جیسے رنگین مزاج بادشاہ سے پگڑیوں کا تبادلہ کیا اور یوں دنیا کا مشہور ترین اور بیش بہا قیمتی ہیرا ’کوہ نور‘ نادر شاہ کے ہاتھ لگ گیا۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جس میں طوائف کے کردار سے ہندوستان کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنا ممکن ہوا۔ پہلے محمد شاہ رنگیلا کے حوالے سے کچھ دلچسپ حقائق جانتے ہیں اور پھر وہی حقائق آج کے عمرانی دورِ اقتدار پر اپلائی کر کے ’حریم شاہ‘ کی طرف مڑتے ہیں۔ محمد شاہ رنگیلا اپنے پڑدادا اورنگزیب عالمگیر کے دور میں 1702 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام روشن اختر تھا لیکن درباریوں نے انہیں ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا نام دیا۔
جیل سے رہائی کے بعد 17 سال کی عمر میں، 1719ء میں تخت نشین ہوا۔ اور رنگین مزاجی اور عیش کوشی کی وجہ سے تاریخ نے اُسے ’محمد شاہ رنگیلا‘ کے نام سے مشہور کیا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ بادشاہ تھا لیکن رنگین مزاجی غالب رہی۔ وہ جب چاہتا جو چاہتا کر دیتا تھا۔ بعض اوقات دربار میں ننگا آجاتا تھا اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اُس کی دیکھا دیکھی میں درباری بھی ننگے ہو جاتے۔ جب اُس کا دل چاہتا وہ دربار میں کھڑے کھڑے پیشاب کر دیتا اور درباری واہ واہ کیے بغیر نہیں رہتے۔
کبھی کبھی وہ زنانہ کپڑے پہن کر آتا اور تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم دیتا۔ کسی کو کھڑے کھڑے عہدہ سونپ دیتا تو کسی کو وزیر اعظم بنا دیتا تھا۔ رقص و سرود کا دلدادہ تھا اور ہر وقت تقریباً ایسی محفلیں سجی رہتی تھیں۔ آپ تاریخ کو چھان ماریں تو رنگیلا کی رنگین مزاجی کے حوالے سے آپ کو ڈھیر سارے واقعات تاریخ کے اوراق میں ملیں گے۔ انہی طوائفوں اور رنگین مزاجی نے اسے ہنوز دلی دور است کی آس پر بٹھایا اور پھر نادر شاہ نے سب کچھ ختم کر دیا۔
یہ تو رنگیلا شاہ اور نادر شاہ کی کہانی ہے لیکن آج کے دور میں ایک اور شاہ سر اُٹھا رہی ہے، حریم شاہ۔ جو آئے روز کسی نہ کسی رنگیلا شاہ کی رنگین مزاجی اور رنگیلی صورت حال سے دنیا کو واقف کرا دیتی ہے۔ ہم بھی رنگیلا شاہ کے درباریوں کی طرح دیکھا دیکھی میں واہ واہ کیے بغر نہیں رہتے۔ ہم اکیسویں صدی میں بھی اٹھارویں صدی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ حریم شاہ، نور بائی بنی ہے۔ دنیا کو دکھا رہی ہے کہ فلاں فلاں جگہ قیمتی جواہرات ہیں، انہیں کرید کرید کا نکالیں اور لوٹ لیں جو دل چایتا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے شیخ رشید صاحب کے حوالے سے کچھ مواد گردش کر رہا تھا۔ 26 دسمبر کی رات یہ بات اتنی بڑھی کہ غالب قیاس ہے کہ پورا پاکستان اسی طرف متوجہ تھا۔ رات قریب بارہ بجے شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک سلیبرٹی نے حریم شاہ اور صندل خٹک کو لائیو لیا۔ یہ دعویٰ کچھ گھنٹے پہلے سے کیا جا رہا تھا کہ دونوں خواتین کو لائیو لے کر معمے کی وضاحت کی جا رہی ہے لیکن ویڈیو کو دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ وہ تو پہلے سے ایڈیٹ کی ہوئی ویڈیو ہے جو مکمل طور پر یک طرفہ اور لکھا ہوا سکرپٹ ہے۔
حریم شاہ اور صندل خٹک کی باتوں سے دل میں ایک ہیجان پیدا ہو رہا تھا۔ حریم شاہ اور صندل خٹک کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں اعلیٰ سطح پر کافی اپروچ حاصل ہے۔ وہ جس طرح باتیں کر رہی تھیں تو لگ رہا تھا یہ عمرانی کابینہ کو کھڑے کھڑے ننگا کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رات کے دو بجے سے شروع ہونے والی یہ لائیو ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
میں خود یہ ویڈیو لائیو دیکھ رہا تھا۔ نیند کے غلبے نے زیادہ سوچ بچار کا موقع نہیں دیا۔ بعد میں ویڈیو سکِمینگ کے دوران کچھ عجیب سی باتیں سامنے آئیں۔ وہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو بدنام کر دینا بائیں ہاتھ کا کام سمجھتی ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کی ویڈیوز منظر عام پر لانے کی بات کی۔ لیکن جس وقت وہ یہ باتیں کر رہی تھی تو باتوں کو خلط ملط کیا گیا۔
کچھ خاص سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا یہ واقعی عمران خان کے حوالے سے اس قسم کی ویڈیوز رکھتی ہیں یا نہیں! خیر بات جو بھی ہو یہ تو عیاں ہے کہ رنگیلا شاہ کی نشانی حریم شاہ نے بر سر اقتدار وزراء کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ ملکی صورت حال جو بھی ہو لیکن یہ دونوں یعنی حریم شاہ اور صندل خٹک بڑی کام کی چیزیں ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ کافی حد تک خدمات سر انجام دے سکتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ رنگیلا شاہ کے بھیس میں نادر شاہ بن کر آئیں ہیں اور نادر شاہ کے بھیس میں رنگیلا شاہ کی حکمرانی کو ملیا میٹ کر دیں گے۔
رنگیلا کے دور حکومت میں طوائفیں بادشاہ کی منشا کے مطابق دربار میں موجود رہتیں تھیں لیکن یہاں تو کسی کو علم بھی نہیں اور اس طرح کے کردار دربار میں مغرور انداز میں داخل ہوتے ہیں اور پوری ریاست کو داغ دار کر دیتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ پرانے زمانے میں تاریخ لکھی جاتی تھی لیکن دورِ جدید میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ آجکل تاریخ لکھی بھی جاتی ہے، بنائی بھی جاتی ہے اور کھینچی بھی جاتی ہے۔ تاریخ کو تاریخ بننے کے لئے کسی کتابی صورت میں منظر عام پر لانا لازم نہیں رہا۔
آج کل سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا تاریخ سازی کا کام آناً فاناً کر رہا ہے۔ اگر حریم شاہ کی صورت میں نادر شاہ سے بچنا ہے تو نادر شاہ کی صورت میں رنگیلا کی حکمرانی ختم کرنی ہوگی۔ ورنہ انجام وہی ہوگا جو رنگیلا کا ہوا۔ اور آخر میں حریم شاہ نور بائی کی طرح آخری کیل بھی ٹھونک دے گی۔ محمد شاہ اور حریم شاہ کا ٹولہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).