وکلا کا میڈیا ٹرائل


آج نہ جانے کیوں وکلاء گردی اور محبتوں کے گہوارے، اصولوں کے علمبردار اور شائستگی کے پیکر یعنی پاکستانی سماج پر قلم کو جنبش دینے کا خیال آیا۔ وہی وکلاءگردی جو پی آئی سی واقعہ کا سبب بنی۔ وہ دلخراش واقعہ جس پر انسانیت شرمسار ہو گئی۔ خیر پاکستانی سماج میں انسانیت کا شرمسار ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ مگر حقائق کیا ہیں کیونکہ حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پی آئی سی واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ پی آئی سی واقعہ معاشرے میں عدم برداشت کا عکس ہے۔

ایک اشتعال انگیز ویڈیووائرل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وکلاء برادری کا نوجوان طبقہ تذبذب کا شکار ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اگلے روز لاہور بار ایسوسی ایشن کے سامنے کال دی جاتی ہے۔ لاہور بار کے نمائندگان نوجوان وکلاءکے غم وغصے کو برداشت نہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ چل دیتے ہیں جتھے کی صورت میں یہ وہاں سے نکلتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو روکنے کی بجائے خاموش تماشائی کا کردار نبھاتے ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹروں تک خبر پہنچ جاتی ہے کہ وکلاء کا ایک گروہ ہسپتال کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو انھوں نے بھی مسلح ہونا شروع کردیا۔

وکلاء جب وہاں پہنچتے ہیں تو ریاستی ادارے دونوں گروہوں کو لڑنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق وکلاء پر تشدد کرواتے اور کرتے ہیں۔ 50 کے قریب وکلاء کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جاتی ہیں اور انھیں نقاب پوش کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب یہ واقعہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے سینئیرنمائندگان کے علم میں آیا توانھوں نے انتظامی اداروں، وزیر قانون اور فاضل ججوں سے معاملہ حل کرنے کی اپیل کی۔

اس کے ساتھ ساتھ ہی انہوں نے اس دلخراش اور اندوہناک واقعہ پرقوم سے معافی مانگی۔ اس کے بعد وہ پھولوں کے گلدستے لے کر ڈاکٹروں سے رسائی کے لیے بھی ان کے پاس گئے۔ مگر اس واقعہ کے بعد وکلاءشعبے کا تمسخر بنا کر رکھ دیا گیا۔ وکلاء کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ اور تو اور وکلاء کو اِس سماج نے دہشت کی تصویر بنا دیا۔ مگر ایک سوال ذہن میں جنم لیتا ہے۔ وہ یہ کہ اس واقعہ میں زیادہ ترنوجوان وکلاء ملوث تھے جن کی وکالت پریکٹس زیادہ سے زیادہ 4 سے 6 سال تھی۔

ان وکلاء کو وکالت میں آئے ہوئے اگر 4 سے 6 سال ہوئے تھے توان کی باقی عمر کہاں گزری۔ ظاہری بات ہے اسی پاکستانی سماج میں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ یہ وکلاء ایک رات پہلے ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہوں۔ اور اگر وہ اسی سماج کا حصہ تھے تو یہ سماج انہیں 20 سے 25 سال میں اگر مہذب طور طریقے سکھاتا تو کیا یہ دلخراش واقعہ پیش آتا؟ خیر وکلاء بہت برے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی میں جب اوباشوں کے ہجوم  نے سماج سے مشال نامی طالب علم چھینا اور نہ صرف چھینا بلکہ تشدد کی بد ترین مثال رقم کی اور یہ واقعہ اُن کی بدمعاشی کی منہ بولتی تصویر بنا اس مشال کے قتل پر مذمت کی بجائے اس کے قاتلوں کی رہائی پر شادیانے بجائے گئے اور ان کا استقبال پر انھیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ اسی سماج میں جب ایک مخبوط الحواس شحض صلاح الدین پولیس کے عقوبت خانے میں تشدد کا نشان بنا اور اُس کے جسم پر ہر ایک زخم چیخ چلا کر سماج کی ستم ظریفی کی گواہی دیتاہے تب آئی جی کی طرف سے مذمتی بیان نہیں آتا مگر اس وقت البتہ سماج قد آور ہو جاتا ہے۔

شرمندگی ہمیں فقط وکلاء گردی پر ہونی چاہیے۔ نقیب اللہ قتل کیس میں اُس کا باپ ایوان عدل کی زنجیر ہلا ہلا کر عالم فانی سے کوچ کر جاتا ہے مگر منصفی کے مسند پر فائز منصف اس کے بیٹے کے قاتل کو سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈالتے وہ آج بھی آزاد ہے اور اُس کی آزادی تو اس سماج کے لیے فخر کر بات ہے۔ دادو کے سنگلاخ پہاڑوں میں جب نو سالہ گل سما کو سنگسار کردیا جاتا ہے تب سماج کے مہذب چاند کو گرہن نہیں لگتا مگر پی آئی سی واقعہ میں وکلاء کی غیر مہذب حرکت اس سماج کے لیے شرمندگی کا باعث ضرور ہے۔

ساہیوال واقعہ میں جب معصوم کلیوں کے سامنے ان کے ماں باپ پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور بد قسمتی سے وہ گولیاں مارنے والے کوئی اور نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کارندے ہیں اس لمحے ان بچوں کی آنکھوں میں نقش ہونے والے سوالات سماج کے نغمے گا رہے تھے یا نوحے پڑھ ریے تھے۔ مگر غنڈے تو وکلاء ہیں۔ آسیہ کیس کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہونے والے ملاوّں نے املاک کو نقصان پہنچایا بہت ساری گاڑیاں نظر آتش کی تب اس سماج کو کوئی فرق نہیں پڑا مگر پی آئی سی واقعہ نے البتہ اس سماج کو ضرور جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

خیر پی آئی سی واقعہ تو ماڈل ٹاؤن، 12 مئی کا قتل عام اور بلدیہ فیکٹری جیسے سانحات سے بھی زیادہ بھیانک، اندوہناک اور دلخراش ہے۔ کیونکہ سماج کا سب سے “غلیظ، بدبودار اور غنڈہ طبقہ” قرار دیے جانے والے وکلاء اس میں شامل ہیں۔ وکلاء بہت برے ہیں۔ مگر سماج؟ ارے بھائی! سماج تو امن وآشتی کی درخشاں مثال ہے۔ وکلاءگردی پر میں اپنے نوجوان طلباء کو کہوں گا وکیل مت بننا مگر اس سماج میں رونما ہونے والے دوسرے واقعات کو برا بھی مت کہنا کیوں کہ سماج اچھا اور وکیل برے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments