سوشل میڈیا اور ہمارے رویے


سوشل میڈیا کی شیئرنگ اور تصویریں معاشرے میں ہے چینی اور انتشار کا باعث بنتی ہیں، یہ بہت سے لوگوں کا موقف ہے جو کے ایک حد تک ٹھیک بھی ہے۔ جب آپ دوسروں کو فینسی ریسٹورنٹس میں کھاتا پیتا اور انٹرنیشنل ویکیشنز پہ گھومتا پھرتا دیکھتے ہیں اور خود یہ سب آپ کی دسترس سے باہر ہو تو احساسِ محرومی بڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف خوش باش تصویریں شیئر کرتے وقت یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ نظر لگ جائے گی لیکن سارا الزام سوشل میڈیا اور نظر کو کیوں دیں۔ نظر برحق ہے

لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہم نے دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا چھوڑ دیا ہے اور ہم بحثیت مجموئی بدگمانی کی موذی بیماری کا شکار ہیں جس سے ناصرف منع کیا گیا ہے بلکہ لوگوں کو اللہ اور لوگوں سے خوش گماں رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے مسئلہ دراصل سوشل میڈیا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی نئی چیز کو اپنانے میں بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔

جب سوشل میڈیا نہیں تھا جب بھی ہم ایک دوسرے کو اپنی خوشیوں کی، غموں کی، کہیں آنے جانے کی، ملنے بچھڑنے کی اطلاع دیا کرتے تھے، فرق یہ تھا کہ ملنا جلنا زیادہ ہونے کی وجہ سے سب ایک دوسرے کے واقف حال تھے اس لیے ان کی خوشیاں ہمیں تکلیف نہیں دیتیں تھیں۔ اب جب یہ خبریں ہمیں سوشل میڈیا کے توسط سے ملتی ہیں تو ہمیں تکلیف دیتی ہیں شاید اس لیے کہ خاموش تصویریں ادھوری کہانیاں سناتی ہیں۔

مسلہ دراصل ہماری ذہنیت کے ساتھ ہے۔ زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں لیکن پہلے متوقع شادیوں کی خبر رشتے داروں کو مہینوں قبل دے دی جاتی تھی اور سب لوگ حسب توفیق کاموں میں مدد کرتے تھے، وہ شرکت ان کو اپنایت کا احساس بھی دیتی تھی اور خوشی بھی۔ کسی کے ہاں گاڑی آتی تھی نئی ہو یا پرانی وہ قریبی عزیزوں کو دکھانے ضرور لے کے جاتا تھا اور بدلے میں خلوص بھری مبارکبادیں بھی وصول کرتا۔ میٹرک میں بچے کا اے گریڈ آتا یا سی خوشی دونوں گھروں میں برابر منائی جا تی

اور سب ہار مٹھائی کے ساتھ مبارکباد دینے جانا اپنا فرض سمجھتے۔ کسی کے بچے کی نئی نوکری لگتی تو وہ حسب توفیق خاندان کے بڑوں کے لئے چھوٹے موٹے تحائف کا اہتمام کرتا یا پھر مٹھائی تو ضرور لے جاتا اور دعائیں لیتا، پھر بھاگ دوڑ، زیادہ سے زیادہ کے حصول اور مقابلے بازی میں آہستہ آہستہ ہم نے اپنی قدریں کھودیں، ہماری رگوں میں بد گمانی کا زہر پھیل گیا۔ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ تمام لوگ ہماری خوشیوں پہ نظر لگانے کو مشتاق بیٹھے ہیں۔

ہم نے لوگوں کو خوشیوں میں شریک کرنا اور ان کی خوشی میں شریک ہونا چھوڑ دیا۔ شادی بیاہ کی خبریں قریبی رشتہ داروں کو بھی تکلف سے دی جانے لگیں کہ مبادا ہمیں نظر ہی نہ لگا دیں۔ امتحان کے نتیجوں کو چھپانا، خوشی کے موقعوں کو چھپانا، بچوں کی نوکریوں پہ کچھ دینا دلانا یا خوشی منانا تو دور کی بات بد گمانی کے مارے کھل کے خوشی کا اظہار بھی ہمارے گلوں میں اٹک گیا کہ کہیں کوئی ہمارے مال و اسباب پہ نظر نہ لگا دے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری طرف بھی ویسی ہی نفرت، حسد اور بد گمانی نے جنم لیا۔ مقابلے بازی کا رجحان بڑھا۔ مزاجوں میں کم ظرفی آگئی، غرور اور تکبر در آیا، دلوں میں فاصلے بڑھے تو لوگ سب کے ہوتے ہوے بھی تنہائی کا شکار ہوگئے جس سے معاشرے میں گھٹن اور ڈپریشن بڑھ گیا۔ سوشل میڈیا نے ڈائریکٹ رابطہ کم کر دیا اور لوگوں کا کنیکشن اسکرینوں تک محدود ہوگیا۔ بے چینی اور انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جب لوگ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کے مسئلے مسائل اور اندرونی حالات بھی جان پاتے ہیں لیکن اگر رابطہ فقط سوشل میڈیا کی رنگ برنگی خوبصورت تصویروں تک رہ جائے تو آدمی کو دوسری طرف کا منظر صرف دلکش اور خوبصورت ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ تصویر کے پس منظر سے بے خبر رہتا ہے، ہم دوسروں کی تصویروں، ایئر پورٹس اور ہوٹل چیک ان سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن اس کے پیچھے اس کی جد و جہد اور کوششوں کے بارے میں نہ جانتے ہیں نہ سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا وہ جن ہے جو بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اب آپ چاہے اس پہ تنقید کریں اس کو اپنایں یا نہ اپنایں اس کو دوبارہ بوتل میں قید کرنا ناممکن ہے۔ آپ سوشل میڈیا کا استعمال نہ بھی کریں آپ کے بچے اس کا استعمال ضرور کریں گے اور ان پلیٹ فارمز پہ کریں گے جن کے بارے میں آپ کو پتا بھی نہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تصویریں شیئر کرنے سے نہیں روک سکتے لیکن اپنی سوچ کا زاویہ بدل سکتے ہیں

ٹیکنالوجی کے طوفان سے نمٹنے کا ایک حل یہ ہے کہ اس سے احسن طریقے سے استعمال کرنا سیکھا جائے۔ مثبت رویے اپنائے جائیں۔ بد گمانی ختم کرکے اچھا سوچا جائے۔ دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے کی کوشش کی جائے اور اگر یہ سب بھی نہیں کر سکتے تو پھر بس ایک ہی حل رہ جاتا ہے

”پاس کر یا برداشت کر“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments