کراچی میں صحافی نصراللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر کے الزام میں 5 سال سزا کے کچھ پوشیدہ حقائق


نصر اللہ صاحب، معذرت بہت دباؤ تھا۔ بے فکر رہیں، ایسا ججمنٹ ہے جو تین سماعتوں میں “اڑ” جائے گا۔

تلخ ہی سہی مگر ہے تو حقیقت کہ ایک ایسے نظام میں سیشن جج سے “انصاف برائے قتل” کا کیا شکوہ کرنا۔ جب انصاف کے منصب پر فائز سب سے بڑی عدالت کا جج اور سربراہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سوئے ہوئے ضمیر کو یکدم جگائے اور ٹی وی پر برملا اعتراف کرے کہ جج اپنی نوکری کے تحفظ کی خاطر فیصلوں میں سمجھوتہ کرتے ہیں۔

مخالفین پر بھینس، بکری چوری کرنے کے مقدمات کو چھوڑیں۔ سنا تو ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے جج نے برسوں بعد ہی سہی مگر دباؤ کا اعتراف کیا۔ پھر کچھ ہی ماہ پہلے ہی کی تو بات ہے۔ جج ارشد ملک نواز شریف کو سزا سناتا ہے۔ اورپھر اسی مجرم سے اس کے گھر ملاقاتوں کا اعتراف کر ڈالتا ہے۔ لیکن آج ذکر ایک ایسے مقدمے کا جس میں انصاف کا قتل تو ہوا مگر منصف کے ضیمر نے فوری طور پر دباؤ کا اعتراف بھی کر لیا۔

کراچی پریس کلب کے رکن اور سینئر صحافی نصر اللہ چوہدری کے کیس کا فیصلہ قانونی نقائص سے بھرپور تو ہے ہی مگر ایک صحافی کو مبینہ لٹریچر رکھنے کی بنیاد سزا کا منفرد کیس اپنی مثال آپ ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں سب شائع ہوچکا کہ 7 دسمبر 2018 کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کراچی پریس کلب میں گھسے۔ شدید رد عمل پر اگلے روز یعنی 8 دسمبر کو نصر اللہ چوہدری کو ان کے گھر گرومندر سے اٹھا لیا گیا۔ صحافتی تنظیموں کا احتجاج پھیلا تو 11 دسمبر کو ان کی گرفتاری سی ٹی ڈی کے ذریعے ظاہر کردی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ نصراللہ چوہدری نامی سینئر صحافی سے کوئی دھماکہ خیز موآد، اسلحہ، توپ، ٹینک نہیں بلکہ صرف اور صرف 11 کتابیں کراچی پریس کلب کے بیگ سے برآمد ہوئی ہیں۔ مذکورہ 11 کتابیں جہاد پر ترغیب دینے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ نصر اللہ چوہدری کے کالعدم تنظیم سے روابط ہیں۔

فیصلے پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سنانے کی تاریخ دراصل 6 جنوری تھی۔ پھر اچانک 26 دسمبر یعنی کراچی پریس کلب کے سالانہ انتخابات سے عین دو دن قبل کیسے فیصلہ سنا دیا گیا۔ اچانک ہوا کیا اور کیوں ہوا؟ پھر کیا اتنا اچانک تھا کہ ہنگامی بنیاد پر فیصلہ تحریر کرنا پڑا۔

فیصلے کے قانونی نکات تو چھوڑیے۔ پہلے ہی صفحے پر فاش غلطی۔ جہاں ملزم کے وکیل اور سرکاری وکلا کے نام تحریر ہوتے ہیں وہاں نصر اللہ چوہدری کے وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ کے نام کے ساتھ نصر اللہ چوہدری (محمد فاروق ایڈووکیٹ فار ایکوزڈ نصر اللہ چوہدری) کے بجائے (محمد فاروق ایڈووکیٹ فارایکوزڈ خالد یوسف باری) تحریر کیا گیا ہے۔

نصر اللہ چوہدری

مطلب فیصلہ تو نصر اللہ چوہدری کا مگرججمنٹ کے پہلے صفحے پر ہی نصر اللہ چوہدری کے بجائے خالد یوسف باری تحریر ہے۔ حالانکہ اس کیس میں نصر اللہ چوہدری کے سواہ کوئی ملزم ہی نہ تھا۔ پھراسے جلد بازی سمجھا جائے، کاپی پیسٹ، فاش غلطی یا کچھ اور۔

سی ٹی ڈی کا اپنے الزام میں کہنا تھا کہ نصر اللہ چوہدری کے کالعدم تنظیم سے روابط ہیں مگر سی ٹی ڈی کے تینوں گواہوں سے کہیں ثابت ہوا نہ بحث کی گئی کہ روابط کا تعلق کیسے منسلک ہوا۔ فیصلے میں جے آئی ٹی کا سرسری حوالہ دے کر لکھ دیا گیا کہ رابطہ ثابت ہوتا ہے۔ فیصلے کا بیشتر حصہ نصراللہ چوہدری کو کتابیں رکھنے پر سزا سے ہے یعنی پراسیکیویشن کے بقول نصر اللہ چوہدری کا جرم یہ تھا کہ ان کے قبضے سے جہادی کتابیں برآمد ہوئیں۔

حالانکہ نصر اللہ چوہدری کی 72 گھنٹے بعد گرفتاری ظاہر کرنا ازخود ایف آئی ار کو غیر قانونی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس کا ثبوت ان تین روز کے اندر عالمی سطح پر شائع ہونے والے خبریں ہیں۔ مگر عدالت نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔

اگر ایک لمحے کو مان بھی لیا جائے کہ وہ کتابیں ایک صحافی سے برآمد ہوئیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ کتابیں عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ تو سوال تو بنتا ہے کہ کیا صحافی ایک عام فرد ہے جس کے پاس صرف وہی کتاب دستیاب ہو جو باآسانی مل سکے۔

کسی صحافی پر کتابیں رکھنے کا الزام تو واقعی تشویش ناک ہے۔ اس فارمولے کے تحت تو کوئی بھی محفوظ نہیں کیونکہ اگر کوئی کالعدم یا قوم پرست دہشت گرد تنظیم صحافیوں کے دفاتر میں پریس ریلیز یا کوئی کتابچہ بھی بھجوا دے تو مطلب ہے وہ صحافی بھی اسی صف میں کھڑا پایا جائے گا پاکستان ہی نہیں دنیا کا منفرد کیس کہ صحافی ممنوعہ لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے۔

نصر للہ چوہدری کیس کے فیصلے سے کورٹ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے علاوہ دیگر صحافیوں اور عام لوگوں کو علم ہو رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں کس قسم کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ مگر سندھ ہائی کورٹ ہو، کراچی بار ایسوسی ایشن یا ملیر بار ایسوسی ایشن۔ آپ اگر کسی وکیل سے معلوم کریں تو وہ کھل کر اے ٹی سی میں ہونے والی سرگرمیوں پر بات کرتا پایا جائے گا۔

کچھ ہی دنوں قبل ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں کراچی بار کے صدر نعیم قریشی نے کھلے عام کہا کہ بعض اے ٹی سی عدالتوں میں من پسند فیصلے کروائے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ ججز کے چیمبرز میں جاتے ہیں۔ پالیسی کے تحت فیصلہ لکھواتے اور من مانیاں کرتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں انصاف نہیں، فیصلے ہو رہے ہیں اور بعض عدالتوں میں تو فیصلہ بھی جج خود نہیں دے رہے۔

26  دسمبر کی دوپہر نصر اللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کی پاداش میں 5 سال قید سنا دی گئی۔ نصر اللہ چوہدری کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کی تیاری شروع کی جا رہی تھی کہ اچانک کمرہ عدالت میں موجود کورٹ رپورٹرز سمیت سبھی کے کانوں میں ایک آواز سنائی دی۔

“نصر اللہ چوہدری صاحب، معذرت خواہ ہوں۔ آپ جانتے ہیں پاکستان میں فیصلے کس طرح ہوتے ہیں۔ شدید دباؤ تھا۔ بے فکر رہیں آپ کے خلاف سزا سندھ ہائی کورٹ میں تین سماعتوں پر بھی ختم ہوجائے گی”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments