کویٹہ مجھے اداس کر دیتا ہے


جب ابو کی پوسٹنگ کویٹہ ہوئی میں چوتھی جماعت میں تھی۔ ابو کی نوکری اس نوعیت کی تھی کے وہ اکثر کراچی سے دور ہی رہتے تھے۔ کبھی سکھر بھی حیدرآباد، لیکن وہ جگہیں کراچی سے زیادہ دور نہیں اس وجہ سے وہ نسبتاً جلدی جلدی گھر کے چکر لگا لیا کرتے تھے۔ کویٹہ کی پوسٹنگ تک میں چوتھی جماعت میں آ چکی تھی، ابو کا کراچی جلدی آ نا نسبتاً مشکل ہو گیا تو وہ ہمیں اپنے پاس بلا لیا کرتے۔ چونکہ باقی سب بہن بھائی بڑی جماعتوں میں تھے اس لیے وہ گرمی کی چھٹیوں میں آتے۔

میں اور میرا چھوٹا بھائی اسکول سے چھٹیاں کرتے اور کویٹہ امی کے ساتھ بس میں بیٹھ کے آ جاتے۔ عام طور پر لک پاس کی چڑھائی کے ساتھ ہی میں الٹیاں کرتی اور رونا شروع کر دیتی کہ آخر کب کوئٹہ آ ے گا اب تو مجھے الٹی بھی ہو گئی، امی مجھے صاف کرتیں پھر تسلی دیتیں تم بہادر ہو ابھی تھوڑی دیر بعد ہی منزل آ جائے گی۔ بس ذرا سی دیر میں تم حوصلے سے کام لو، میرا بھائی آرام سے سو رہا ہوتا۔ جیسے ہی بس اسٹاپ کے قریب آتی میں دروازے کے قریب چلی جاتی مجھے ابو نظر آ جاتے سگار یا پائپ ان کے ہاتھ میں ہوتا بس میں سے سب سے پہلا مسافر جو نیچے آتا وہ میں ہوتی۔ ابو میرا ہاتھ پکڑ کے نیچے اتارتے اور میرے ساتھ سامان نکلوانے چلے جاتے۔ میں جیسے ہی ان کو دیکھتی سب سے پہلے اپنی الٹی کی کہانی سناتی۔

وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ میرے پاس الٹی کی ایک نئی کہانی ہوتی ہے لیکن پھر بھی پوری سنتے جیسے ہی ہم پی ٹی وی کالونی پہنچتے میری طبیعت ٹھیک ہو جاتی، گھر میں موسم کے پھل اور کھانا بنانے کا سامان رکھا ہوتا امی فوراً کھانے پکانے گھر صاف کرنے میں لگ جاتیں۔

دو چار دن بعد ہی ہم دونوں بہن بھائی کویٹہ سے بور ہو جاتے۔ ایس ٹی این بھی نہیں تھا جس سے کچھ دل بہل جائے۔ ایک وی سی آر واحد تفریح ہم روز ہی ایک انڈین فلم دیکھ لیتے۔ پھر بھی ڈھیر سارا وقت بچا رہتا۔ شام میں میں کھیلنے جاتی لیکن مضافاتی بچے مجھے اپنے گروہ میں شامل نہیں کرتے۔ ہم تصویر بناتے، بورڈگیم کھیلتے اور پھر وہ بھی بیزار کر دیتے۔ چار لوگوں میں دو بچے اور دو بڑے امی جو کچھ کھانے میں بناتیں بچ جاتا۔ خبرنامہ جب چل جاتا تو ابو گھر آتے اور ہم لمبی چہل قدمی کو جاتے۔ یہ تھا ہمارا گھومنا۔

وہ ہماری زندگی کا آخری نارمل دور گزر رہا تھا۔ ہم نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ چند سالوں میں دنیا تبدیل ہونے والی ہے۔ دو سال میں ہم دونوں بہن بھائی کتنی مرتبہ کویٹہ گئے اس کی کوئی گنتی نہیں۔ ابو کی دو سال کویٹہ پوسٹنگ رہی پھر ایک سال کراچی اور اس کے بعد پشاور کی پوسٹنگ ابو کی آخری پوسٹنگ تھی۔ جب ابو کی پشاور پوسٹنگ ہوئی میں آٹھویں میں آ گئی تھی اب اسکول سے چھٹیاں کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ امی کے لیے بھی پشاور جانا کویٹہ کی طرح آسان نہیں تھا، پشاور سے ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد ابو ہیپیٹائٹس سی کے ساتھ واپس آئے تو وہ دو سال بستر پہ رہے اور ایک صبح اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

جب میں کراچی میں ہوتی ہوں تو مجھے گھر میں اپنے لوگوں کے درمیان ابو کا خیال تو آتا ہے لیکن یوں دل کو اداس کرنے والی یاد بہت ہی کم آتی ہے۔ امی ابو کا ذکر دن میں ایک بار کم سے کم اور کئی بار اکثر کیا کرتی ہیں۔ لیکن کویٹہ مجھے ایسا اداس کرتا ہے کہ میں کہیں ماضی میں چلی جاتی ہوں۔ بہت سال پیچھے۔

یہ کویٹہ وہ نہیں جو نوے کی دہائی میں تھا۔ یہ تو کوئی چھاؤنی ہے جہاں رنگ برنگے فوجی بار وائر کے پیچھے بیٹھے پہرا دے رہے ہیں۔

اب جناح روڈ کے درخت کسی وائرس سے سوکھ چکے ہیں، کویٹہ پائن اب نظر نہیں آتا جناح روڈ پہ اب ہینڈی کرافٹس کی دکانوں کی جگہ دوسری دکانیں ہیں، سرینہ ہوٹل کی اونچی دیواریں ہیں، خانہ فرہنگ ایران کے ساتھ باروائر اور بہت سی سکیورٹی ہے، پی ٹی وی اسٹیشن کے سامنے والی سڑک پر اب گزرنے کی پابندی ہے۔ تھوڑا سا آزاد کویٹہ شہر ہے اور بڑی سی چھاؤنی جہاں جانے کے لیے آپ کو اجازت درکار ہے۔ آبادی پہلے سے دگنی اور ہزاروں گاڑیوں سے شہر بھر گیا ہے۔

لیکن ان سب تبدیلوں شور اور ٹریفک کے باوجود جب میں کویٹہ کی سڑکوں سے گزر رہی ہوتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کہیں سے اچانک سگار کا دھواں اڑاتے ابو ایک دم کہیں سے نمودار ہوں گے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیں گے اور ہم سرینہ ہوٹل کے سامنے والی سڑک پر چہل قدمی کرنے چلے جائیں گے دیر تک وہ اپنے بچپن کے ڈھاکہ اور ریڈیو پاکستان کے قصے ہمیں سنائیں گے۔

اس بار جب میں کویٹہ پہنچی تو صبح سات بجے منفی تیں درجے کی سردی تھی، میرا دل عجیب سا ہو رہا تھا جیسے مجھے الٹی ہونے والی ہے جب بس کے دروازے سے میں نے باہر دیکھا تو دھند ہی دھند لوگوں کے منہ سے بھاپ نکل رہی تھی گاڑیوں کی چھتوں پر برف کی تہہ ایک لمحے کو لگا ابو سگار پیتے مجھے لینے بس اسٹاپ آ گئے ہیں اب میرا ہاتھ پکڑیں گے میں بس سے چھلانگ لگاؤں گی اور ان سے کہوں گی ابو آپ کہاں چلے گئے دیکھیں میں اکیلے ہی آ گئی آپ کے پاس۔

لیکن یہ تو محض میرا خیال ہے بس کویٹہ مجھے اداس کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments