ترکی کا نوبل ایوارڈ یافتہ عظیم ناول نگار اورحان پامُک


اورحان پامُک کو اس کے ناول بینم ادم قرمزی Benim Adim Kirmizi پر ملنے والا نوبل ایوارڈ کا سال وہی تھاجس سال میں استنبول گئی تھی یعنی 2006۔ کیا تکسیم میدان اور کیا استقلال سٹریٹ کی کتابوں کی شاندار دکانیں اس کی کتابوں اور اس کی بچوں جیسی معصوم ہنسی والے پوسٹروں سے سجی پڑی تھیں۔ کتابوں کی دکانیں تو سدا کی کمزوری ہے ہماری۔ اب بھلا تکسیم میدان میں کتابوں کی وہ بک شاپ توجہ کیوں نہ کھینچتی کہ ہم لکھنے والے جو ٹھہرے۔

ترکی کے انقلابی شاعر ناظم حکمت سے میری کتابی شناسائی تھی۔ اویا بیدر کا بھی وہ ناول کہ جو کرد ترک تنازع پر لکھاگیا ہے اور جس نے عالمی سطح پر خاصی شہرت کمائی ہے، بہت پہلے پڑھا تھا۔ شیلفوں میں بشار کمال کے ناول سجے ہوئے تھے۔ اورحان پامُک سجا ہوا تھا۔ اور مجھے اپنائیت اور مانوسیت کی خوشبو سارے میں تیرتی نظر آتی تھی۔

7جون 1952 ء کو پیدا ہونے والا اورحان پامُک ایک بڑے کنبے والے گھر میں پیدا ہوا۔ پھوپھیوں، خالاؤں، چچیوں، ممانیوں، اُن کے شوہروں، بچوں اور بڑوں سے بھرا پُراگھر جہاں اگر محبتوں کی بہتا ت تھی تو جھگڑے بھی معمول کا حصہ تھے۔ رنجشیں اور ناراضگیاں، میل ملاپ اور اکٹھے کھانے۔ اورحان کا کہنا ہے کہ اگر میں اپنی اُن یادوں پر لکھنا شروع کروں تو بیس والیم تو کوئی بات ہی نہیں۔

اورحان کا کہنا ہے کہ لکھاری بننے کا تو کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ میرا خواب تو مصور بننے کا تھا۔ اورحان پامُک کا دادا بہت بڑا بزنس مین اور سول انجینئر تھا۔ سڑکوں پلوں کی تعمیر کا ماہر۔ کچھ ایسا ہی اس کا باپ بھی تھا۔ اسکولنگ استنبول کے بہترین پرائیویٹ اسکولوں میں ہوئی۔ استنبول کے ہی رابرٹ کالج سے گریجوایشن کی۔ جرنلزم استنبول یونیورسٹی سے پڑھا۔

پہلا ناول کرنالک وی اِسکKarnalik Ve Isik (اندھیرا اُجالا) ہے۔ اس ناول پر بہت اعتراضات ہوئے۔ لکھاریوں کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اِس ناول کے کچھ حصے بہت بوجھل ہیں۔ اورحان مسلمان ہی نہیں اُسے اپنی پہچان، اپنی شناخت، اپنی ثقافت پر ناز کے ساتھ مسلمان ہونے پر بھی فخر ہے۔ اور شاید یہی چیز ترقی پسندوں کو پسند نہیں۔ اُس کا دوسرا ناول کیویڈٹ بے اور اس کے بیٹے Cevdet Bey Ve Oguari Sons 1982 ء میں چھپا۔ اس ناول پر اسے انعام بھی ملا۔

یہ ناول استنبول کے ضلع نسان تاسی اور اس میں بسنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں پر مشتمل موادپر مبنی بہت خوبصورت تاثر چھوڑنے والی کہانی والا ناول ہے۔ اِس ناول میں اورحان نے اپنے ماحول کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ہمارے اُردو ادب میں اس طرز پر لکھا گیا حسن منظر کا ناول دھنی بخش اور اس کے بیٹے نظر آتا ہے۔

روشن خیال، بالغ نظر اور مثبت رویوں کے حامل اورحان نے آغاز سے اپنی کتابوں پر انعامات حاصل کرنے شروع کر دیے تھے۔ Sessiz Evسیسز او (خاموش گھر) پر ایک انعام، مالدارالی Maldarali اور پھر اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہونے پر بھی اسے یورپین رائٹرز آرگنائزیشن کی طرف سے انعام ملا۔ اس کا تاریخی ناول Beyaz Kale (سفید قلعہ) ترکی زبان میں لگ بھگ 1985 ء میں چھپا تھا۔ اس نے بہت شہرت حاصل کی۔ نیویارک ٹائمز نے بک ریویو میں لکھا تھا۔ مشرق سے ایک اور تابندہ ستارہ طلوع ہو رہا ہے اور یہ اورحان پامُک ہے۔

پامُک کا نیا ناول ینی حیات Yeni Hayatیعنی (نئی زندگی) سوچ کو نیا رخ اور نئی لہردینے والا کے طور پر مشہور ہوا۔ ہاٹ کیک کی طرح یہ کتاب بکی۔ یہ وہ زمانہ تھاجب وہ کُردوں کے سیاسی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی رائٹرز کی تنظیم میں سب سے نمایاں شخصیت کے طو رپر پورے ملک میں اُبھرا تھا۔ ترکی حکومت کا رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔ انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ ان پر تشدد کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اورحان نے مضامین کے ڈھیر لگا دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ کُردوں کے سیاسی حقوق کے علمبردار کے طور پر ترکی میں سیاسی سطح پربھی بہت نمایاں ہوگیا تھا۔ 1999 ء میں یہ مضامین اوتری رینکلرOtri Renkler (دوسرے رنگ) کے عنوان کے تحت کتابی صورت میں چھپے۔

2000 ء میں ”بینم ادم قرمزی“۔ میرا نام سرخ کیا چھپی کہ اس کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا سورج عین نصف النہار پر پہنچ گیا۔ یہ سولہویں صدی کے عثمانی عہد کے سلطان مراد سوم کے زمانے پر محیط استنبول کے اس وقت کے ماحول، اس دور کی رومانیت، پراسراریت، تصو ف اور فلسفیانہ گتھیوں کے امتزاج میں گندھاحد درجہ دلکش اور خوبصورت ناول ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک بار پھر اِس ناول کو ایک بڑا ناول گردانتے اور پامُک کو سرکردہ ادیبوں میں شامل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندی، رومانوی، تخیلاتی اختیار وطاقت کی پراسراریت پر مبنی ایک بے حد دلکش کہانی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ناول جس نے نوبل انعام جیتنے کے ساتھ پامُک کی عزت وشہرت میں بے پایاں اضافہ کیا ہے۔ یہ اُس دور کے ٹٹھرتے دنوں کی کہانی سناتا ہے کہ بندہ سانس رو ک روک کر کتاب پڑھتا ہے۔

پامُک کا ایک اور ناول جو 2002 ء میں چھپا تھا یہ کرKar (برف ) تھا۔ Snow a Strangeness in my mind۔ یہ ترکی کے سرحدی شہر کارس Karsکے پس منظر میں ہے۔ یہ ایک طرح ماڈرن ترکی میں اسلام اور مغرب کے درمیانی اختلافات اور تضادات کی کش مکش کو نمایاں کرتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے اسے بہترین دس کتابوں میں شامل کیا ہے۔

اورحان پامُک صرف فکشن رائٹر کے طور پر ہی نمایاں نہیں ہے بلکہ سکرین پلے رائٹر کے طور پر بھی مشہور ہوا۔ فلم Gizliyuz جس کا مرکزی خیال اس کا ناول سیاہ کتاب تھا۔ اس فلم کی ہدایت کاری مشہور فلم ڈائریکڑ عمر کیور کی تھی۔ تاہم مصنفین کے ایک گروہ نے اس پر چوری کے الزامات بھی لگائے ہیں۔

ترکی کے ایک اخبار حریت کے ایک صحافی مرات بار داکی Murat Bardakei نے اسی سال دلائل اور ثبوت کے ساتھ ثابت کیا کہ اورحان پامُک کے ناول ”میر ا نام سرخ“ دراصل امریکی ناول نگار نارمن میلر کی کتاب Ancient Evenings کی کہانی اور اسلوب کا چربہ ہے۔ مزے کی بات کہ اورحان پامُک نے کوئی تردیدی بیان بھی جاری نہیں کیا۔ شاید ایسے اعتراض ہر بڑے ناول اور ہر بڑ ے منصف پر لگتے ہیں۔ اور انہیں ایسی باتوں کا نوٹس لینے کی عادت یا پرواہ نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments