جانے کیسا ”سال“ تھا، برسوں بیت گئے


نئے برس کی دستک سنائی دے رہی ہے اور گزرے ہوئے کی چاپ کسی رخصت ہوتے مسافر کے دور جاتے ہوئے قدموں کی طرح مدھم ہو رہی ہے۔

کچھ برسوں سے زندگی ایک ہی طرح سے گزرتی تھی۔ ہسپتال، مریض، گھر، بچے اور ماں۔

جانے کیسا برس تھا یہ کہ سب بدل گیا۔ آغاز ہوا ہی تھا نئی امنگ و ترنگ کے ساتھ کہ پچاس برس سے اپنے سائے میں چھپائے بیٹھی ماں نے آنکھیں موند لیں اور ہم کڑی دھوپ میں تنہا ہو گئے۔ نم آنکھوں اور بھاری دل کے ساتھ زندگی کی ہماہمی میں پھر سے شریک تو ہوئے کہ سلسلہ روز و شب رواں ہونا ہیتھا، لیکن دل کا ایک گوشہ اداس اور نم ہی رہا!

ہماری ماں کے لئے بھی یہ برس عجیب اور بدلا ہوا سا تھا۔ زندگی کی آٹھ دہائیوں کے سب نشیب وفراز تنی گردن اور مسکراتے چہرے کے ساتھ گزارنے کے بعد، منوں مٹی کے نیچے، تنہائی میں اور اپنے پیاروں کے بنا!

دل کے ساتھ ساتھ اس برس گھر بھی سونا ہوا۔ نئی منزلیں مسافروں کی راہ تکتی تھیں۔ بیٹیاں، دل کے ٹکڑے، اس پردیس جیسے دیس کو الوداع کہہ کے زندگی کا اگلا سنگ میل طے کرنے ایک اور دیس روانہ ہو چکیں۔ یقیناً یہ زندگی کا وہی پڑاؤ ہے جہاں وقت ماضی کا حصہ بن کے یادوں کی البم میں سج جاتا ہے۔ جس کا کوئی صفحہ آنسوؤوں سے بھیگتا ہے تو کوئی صفحہ چہرے پہ مسکراہٹ کی تتلیاں بکھیرتا ہے۔

ہم بھیگے دل کے ساتھ خالی کمروں میں جھانکتے ہوئے اپنے پیاروں کو خدا حافظ کہہ کے رہ حیات کی اس منزل پہ سوچتے ہیں، جانے یہ کیسا برس تھا؟

اور اس برس وہ بھی ہوا جو ہم زمانوں سے بھولے بیٹھے تھے۔ وہ متاع حیات جس کی صدا کہیں دور سے سنائی دیتی تھی، ہم لحظہ بھر کو ٹھٹکتے تھے لیکن اجنبی بن کے گزر جاتے تھے۔ گردش حیات ہمیں رکنے نہیں دیتی تھی۔ اس برس کے آغاز میں جدائیوں کے کٹھن عذابوں سے گزرتے ہوئے بے خواب راتوں میں وہ ندا ایک گونج میں بدل گئی جیسے کسی قدیم مندر میں گھنٹیاں بجتی ہی چلی جائیں۔ اس بازگشت کو ہمیں ٹھہر کے سننا پڑا اور مدت سے قید الفاظ کو آزاد کرنا ہی پڑا۔

ہم نے وہ لکھنے کی کوشش کی جو زندگی سے آشنا ہو کے اور خود سے آشنا ہو کے سیکھا۔ جی چاہا کہ زندگی کے وہ سب لمحات جنہوں نے کبھی ہمیں خوش کیا، کبھی حیران اور کبھی اداس، ایسے بہت سے لوگوں کو سناؤں جن کی آنکھیں ہماری ہی طرح نم رہتی ہیں۔ جیسے کسی دور دراز کے پلیٹ فارم پہ دو اجنبی مسافر ایک دوسرے سے اپنا درد کہتے ہیں، آنسو بانٹتے ہیں اور پھر جدا ہو جاتے ہیں۔

ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو محبت سے سمیٹنے اور سنوارنے کا کام ”ہم سب“ کے تخلیق کاروں کے جوہری ہاتھوں نے کیا۔ ہماری زندگی کا خلا بھرنے لگا۔ چلتے چلتے پھول بھی ملے اور سنگ باری بھی ہوئی، کہیں چاندنی جیسی ٹھنڈک نے روح پہ پھاہے رکھے تو کہیں آتش فشاں سی آگ نے من جلا ڈالا۔ ہم نے کسی عنایت سے بھی منہ نہیں موڑا، سب کچھ مہربان دوستوں کی دین جان کے دامن میں بھر لیا۔

آج اس برس کے آخری دن ہم تہ دل سے ”ہم سب“ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کم مایہ کو اپنے سفر میں شامل کیا، موتی بکھیرنے والوں کے درمیان ہمارے ارزاں الفاظ کو بھی جگہ دی۔ ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے قلم میں کچھ رمق ابھی باقی ہے۔

اور ہم اپنے قارئین کے بھی ممنون ہیں کہ آپ سب نے اپنی زندگی کے کچھ وقت میں ہمیں شامل کیا، ہماری حیرت زدہ ہمکلامی سنی، اور اپنی بیش قیمت رائے سے نوازا۔ آپ کے ہر ہر لفظ کو ہم نے پڑھا اور اسے مقدم جانا!

کیا ہی عجیب برس تھا!

تڑپ بھی تھی اور سسکیاں بھی

جدائی بھی اور ساتھ بھی

کہیں چپ تھی اور کہیں ڈوبتے الفاظ کی گونج

تیز ہوائیں سرسراتی تھیں

سمندر خاموش تھا

چاند اداس تھا

چراغوں کی لو تھرتھراتی تھی

دور کہیں صبح کاذب کا اجالا

ایک نئی سحر کی نوید

ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مسیحائی

ایک آس

چلو پھر سے بنتے ہیں

کچھ خواب

نیا برس آنے کو ہے

شاید تشنہ لبی کو قرار آ جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments