پیدا ہو گئے ہیں اور حیرانی نہیں جاتی


\"shahidپچھلے ہفتے اُس مرحلے کو گزرے بھی چار سال ہو گئے،جب میں اختتام ہفتہ رات ایک بجے ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ کر سرکاری طور پہ بزرگی کے رتبہ پر فائز ہو گیا تھا ، یعنی وہ مقام جس سے آگے ’بجنگ آمد‘ کے مصنف کرنل محمدخاں کے نزدیک انسان ’پکی روٹی‘ اور ’بہشتی زیور‘ کے مطالعہ کو دیوان غالب پر ترجیح دینے لگتا ہے ۔ فروری 1971 ء میں جب پاکستان کے واحد لینن انعام یافتہ شاعر ساٹھ سال کے ہوئے تو ایک مقبول اخبار نے ’فیض صاحب سٹھیا گئے، کی چوندی چوندی سرخی جمائی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ فیض احمد فیض نے تب تک کوچہ ء قاتل میں گھومنے پھرنے کی پنشن ایبل سروس پوری کرکے یہ حساب لگا لیا تھا کہ ’ہم نے اس عشق میں کیا سیکھا ہے کیا پایا ہے‘ ۔ یہاں ابھی تک حالت یہ ہے کہ بقول ضمیر جعفری:

خدا وندا، یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ پیدا ہو گئے ہیں اور حیرانی نہیں جاتی

حیرانی کیوں نہیں جاتی؟اس کے کئی اسباب گنوائے جا سکتے ہیں ، جو سب کے سب ذرا عالمانہ قسم کے ہیں ۔ میری مراد ایسے دلائل سے ہے جن کے زور پر کسی ٹاک شو میں آپ میزبان کو چپ تو کرا دیتے ہیں ، لیکن خود اپنا دل مطمئن نہیں ہوتا کہ اصل بات یہی تھی ۔ میرا اس نوعیت کا پہلا تجربہ ابتدائی بچپن میں بار بار کیا جانے والا یہ سوال ہے کہ بیٹا ، تم بڑے ہو کر کیا بنو گے ۔ اس پر میں کسی نہ کسی مقبول پیشے کا نام تو لے لیتا ، مگر دل میں غیر بیانیہ اظہار کی ایک لہر سی دم توڑتی محسوس ہوتی کہ بننا یا نہ بننا کیا ہوا ، سوچنا تو یہ چاہئے کہ آدمی دنیا میں کرنا کیا چاہتا ہے،جب ایک بار یہ سوچ لیا تو پھر جو چاہو بن جاؤ۔

اگلی صورت حال کو ہماری ’’اردو کی پہلی کتاب‘‘میں درج ایک لطیفے کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے،جس میں دیر سے آنے کی وجہ بتاتے ہوئے شاگرد استاد سے کہتا ہے کہ ’بارش ہو رہی تھی ، میں کیچڑ میں ایک قدم آگے چلتا تو دو قدم پیچھے پھسل جاتا‘ ۔ ’پھر تم سکول تک کیسے پہنچ گئے ؟‘ ’جناب ، مَیں نے اپنا مُنہ گھر کی طرف کر لیا تھا ‘ ۔ میرے لئے بھی اب تک کی ساٹھ سالہ مسافت ایک خوشگوار پسپائی کا سفر ہی ثابت ہوئی ۔ پسپائی اس لئے کہ ’کیا بنو گے‘ کے سوال سے ڈرتے ہوئے میں نے بھی اپنا منہ گھر کی طرف کر لیا تھا ، اور خوشگواریوں کی اُلٹی سمت کی اس پیش قدمی میں منزل اس اصول کے تحت ملی جیسے جاپان کے رخ پر مسلسل چلتے رہنے والا راہرو بالآخر ہونو لولو جا نکلتا ہے ۔

اس طرز فکر بلکہ بے فکری کو تقویت اس کرکٹ گراؤنڈ کے اندر پہنچی جہاں آج کل کے برعکس بچے ہمیشہ ’کارک ‘ کی سرخ بال سے \"shahidفضل محمود کی طرح ’لیگ کٹر‘ پھینکنے کی مشق کیا کرتے یا حنیف محمد کی طرح ’اسٹاپ اسٹاپ‘ کھیلتے ۔ رہائشی کوارٹروں کے اس میدان میں کوئی باقاعدہ ’پچ‘ تو تھی نہیں ، اِس لئے جہاں جی چاہتا وکٹیں ٹھونک لیتے ۔ پھر یہ بھی تھا کہ موسمی ضروریات ، گراؤنڈ میں گھاس اور خشکی کے تناسب، پیدل اور سائیکل سوار سرکاری ملازمین کی آمد و رفت ، اور پڑوس میں کھڑکیوں کے فی گھر شیشے ٹوٹنے کی شرح کے مطابق ، ہماری پچ کا محل وقوع تبدیل ہوتا رہتا ۔ کسی دن مشرق سے مغرب ، دو روز بعد شمال سے جنوب اور دیگر موقعوں پر ان کے بیچوں بیچ لاتعد امکانی زاویے ۔ اس سے یہ سبق بھی ملا کہ وکٹیں کہیں بھی گاڑ لو ، زندگی کا میچ ہر حال میں جاری رہتا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ اسی سپورٹس مین اسپرٹ کا نتیجہ ہو کہ بعد میں تعلیم و تدریس ، پیشہ ورانہ مصروفیات ، ازدواجی زندگی اور بچوں کو پالنے کے مرحلے آئے تو سہی، مگر اس شان سے کہ ’بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں‘ ۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر فیصلہ کن مرحلے پر ہمارے کچھ کر گزرنے کی بجائے اپنے آپ ہی کچھ ہوتے ہوتے رہ گیا ، اور ہر مرتبہ یہ الٹی چال منزل کی طرف اگلا قدم ثابت ہوئی۔ میری ’’ہسٹری شیٹ‘‘ کی اولین فوجداری واردات مئی1965 ء کے پہلے سوموار کو کیڈٹ کالج ، حسن ابدال سے ہلکی نیلی ڈوری والے جناح ونگ کے ایک باوردی کیڈٹ کا فرار ہے ، جسے خود کو ’اوئے نیو انٹری‘ کے نام سے پکارے جانے کا ملال تھا اور پیشگی اطلاع کے بغیر جوتے پالش نہ کرنے پر ’فراگ جمپنگ‘ کی غیر منصفانہ سزا ملی تھی۔

بزرگوں کی اس نصیحت کے باوجود کہ تم فوج میں جاؤ یا نہ جاؤ یہاں رہ کر تمہاری زندگی بن جائے گی ، بندہ ء ناچیز کا خیال اب بھی یہی ہے کہ اس پہلی آزادانہ پسپائی نے بندے کے لئے بہت سے اہم سوالوں کا فیصلہ کردیا ۔ مضامین وہ پڑھے جائیں،جن کی اس وقت کیڈٹ کالج میں ممانعت تھی۔ ڈاکٹری کا پیشہ ہر گز اختیار نہیں کیا جائے، کیونکہ حسن ابدال سے ایک راستہ سیدھا اس طرف بھی جا نکلتا ہے ۔ تو پھر زندگی میں عمومی رویہ کیا ہو ؟ بس جی ، کوئی بھی رویہ ہو ، بے لچک ٹائم ٹیبل یا سینئیر کا غیر آئینی حکم ہمیشہ کے لئے نامنظور۔ بعض دوستوں نے میرے بعد بھی نیم عسکری اقامتی اداروں میں تعلیم پائی ، لیکن ان کی ذہنی و جسمانی اکڑ فوں کا بوٹوں کے اس جوڑے کا خیال ضرور آتا جسے غیر ضروری دورانیہ کے لئے کلبوت چڑھا کر رکھا گیا ہو۔

فرسٹ ائیر میں داخلہ کے وقت سماجی دباؤ کے تحت پری انجنئیرنگ کے فارم جمع تو کرادئیے، مگر یہ سوچ کر خون خشک ہو رہا تھا کہ \"shahidمیٹرک میں اچھے رزلٹ کے باوجود برف کی حرارت مخفی اور حرارت مخصوصہ کا فرق کس کی سمجھ میں آئے گا ۔ خدا نے عین اس وقت ایک فرشتہ بھیج دیا،جس نے چند ہی دن پہلے یونیفار م ا تار کر ڈھیلا ڈھالا سویلین لباس زیب تن کیا تھا۔ وہ تھے ہمارے پرنسپل سکواڈرن لیڈر (ر) محمد حسین چودھری جنہوں نے ہم باپ بیٹے کا اپنے گھر میں پہلے تو خندہ پیشانی سے استقبال کیا ، پھر ہماری باتیں سُن کر مسکراتے ہوئے ایک نئی پسپائی کا دروازہ کھول دیا کہ ’ملک صاحب ، آپ نے اس کو سائنس دلا دی تو یہ ضائع ہو جائے گا،۔ اب حقیقت تو یہ ہے کہ ’جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں، لیکن جو مزا اپنی مرضی سے ضائع ہونے میں ہے ، وہ دوسر ے کے حکم پر ڈوبنے میں نہیں ۔

ایم اے میں گورنمنٹ کالج سے گورڈن کالج کو ہجرت بھی ایک پس قدمی ہی تھی ، جسے میرے پنڈی وال استادوں کی رہنمائی ، دوستوں کی ہم جلیسی اور پھر بطور مدرس سینئر ساتھیوں کی زندہ صحبتوں نے کشادہ تر گل زمینوں کا سفر بنا دیا ۔ ہمارے فائنل ائیر سے ذرا پہلے کالج کے مشرف بہ اسلام ہونے یا قومیائے جانے سے تاریخ کا ایک باب بند ہو چکا تھا ۔ پھر بھی آج تدریسی اور انتظامی عملے کے انور کمال دین،مالک شکر دین، عزیز جلال دین اور نتھینئیل حاکم دین کا سوچتا ہوں تو ناقابل بیان آسودگی محسوس ہوتی ہے۔خاص طور پہ ان سب کی ’نرول‘ حس مزاح۔جیسے کالج ہی میں رہائش پذیر ڈاکٹر سیموئیل لال سے ایک پروفیسر کا یہ سوال کہ آپ آج دن چڑھے بھی سو رہے ہیں ، اور ان کا تاریخی جواب کہ ’وہ جو جاگتے رہے انہیں کیا مل گیا‘ ۔ سوچیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ٹھیٹھ پنجابی میں کیا کہا ہو گا۔

یہاں دِل چاہتا ہے کہ انگلستان میں بی بی سی سے طویل وابستگی کے بعد اپنی وطن واپسی کو بھی پسپائیوں کے اس عظیم سلسلے میں شامل \"shahid\"کر لوں،لیکن یہ محض خود عظمتی کی خاطر پینلٹی سٹروک لگانے والی بات ہو گی۔ درحقیقت پاکستان سے روانہ ہوتے ہوئے ہی بیگم صاحبہ نے یہ اصولی وعدہ لے لیا تھا کہ کچھ ہو جائے،بیرون مُلک مستقل آباد ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ پھر بھی جب دس سال بعد ’بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں‘ کا مرحلہ آیا تو بیگم کی خوشی تو دیدنی تھی جبکہ ’ہم اہل صفا، مردود حرم‘ دنیوی عیش و سکون چھن جانے کے امکان پر جھینپ رہے تھے۔چنانچہ آخری فیصلہ یارِ عزیز اور تاریخ کے نامور استاد ڈاکٹر خرم قادر کے ’حکم‘ پر ہوا جنہوں نے صاف طور پہ کہہ دیا تھا کہ بس ، بہتیرا رہ لیا ہے باہر، اب واپس چلو۔

خرم قادر کے سبھی فیصلے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ جیسے اب سے چھ برس پہلے ’سٹھیا‘ جانے کے مرحلے پر یہ انتباہ کہ میری سالگرہ منانے کی کوشش کی گئی تو سختی سے پیش آؤں گا ۔ میرا مسئلہ اصولی کم اور ذاتی زیادہ ہے ۔ وہ اس لئے کہ تیسری سالگرہ پر جو ’گج وج‘ کر منائی گئی ، میرے ماموں نے بڑے چاؤ سے مجھے تین پہیوں والی سائیکل لے دی تھی ۔ اس کے دو سال بعد میرے پھوپھی زاد بھائی کے ساتھ یہی حرکت ہمارے ابا نے کی۔ یوں ان ابتدائی تجربات کی روشنی میں سالگرہ کا تصور تین پہیوں والی سائیکل کے بغیر میرے ذہن میں سماتا ہی نہیں۔ اب چونسٹھ سال کی عمر میں اس امکان پر غور کروں تو آنکھوں میں ٹرائیسکل کی جگہ وہیل چیئر گھومنے لگتی ہے ، جو ایک نئی حیرانی کا پیش خیمہ ہے ۔ دُعا ہے کہ یہ آخری پسپائی ٹلتی رہے اور بورڈ نگ کارڈ ملے تو مَیں نے جنگ آزمودہ فوجیوں کی طرح بوٹ پہن رکھے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments