بیت گیا یہ سال بھی


اس وقت عمر عزیز 68 سال، سات مہینے اور سات دن بنتی ہے۔ ان گزرے مہ و سال پر نظر ڈالتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ان برسوں میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا ہے۔ پتہ نہیں اس کو خوش نصیبی کہا جائے گا یا نہیں کہ اس عمر میں ہجری صدی کو تبدیل ہوتے دیکھا، پھر بیسویں صدی کو اکیسویں میں بدلتے اور ملینیم کو بدلتے بھی دیکھا ہے۔

گاوں میں کسی کو کرسمس کا تو پتہ نہیں ہوتا تھا، 25 دسمبر کو وڈا دن کہا جاتا تھا۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں سکول میں چھٹیاں ہوا کرتی تھیں جنھیں وڈے دن کی چھٹیاں کہا جاتا تھا۔ البتہ لوگوں کو یہ ضرور پتہ ہوتا تھا کہ دسہرہ، دیوالی اور ہولی کے دن کون سے ہیں۔ دسہرہ اور ہولی کی تو شاید چھٹی بھی ہوا کرتی تھی۔

 اس زمانے کی جو بات بطور خاص یاد ہے وہ یہ ہے گاوں کے بہت سے بزرگ اٹھتے بیٹھتے ہر ناپسندیدہ بات پر چودھویں صدی کا حوالہ ضرور دیا کرتے تھے۔  مولوی حضرات چودھویں کو آخری صدی قرار دیا کرتے تھے جس کے بعد قیامت برپا ہو جانی ہے۔ ایک بار تو قیامت آنے کی باقاعدہ افواہ پھیل گئی تھی جس پر بہت سے لوگوں، بالخصوص گاوں کی خواتین نے یقین بھی کر لیا تھا۔ اس افواہ کے کوئی بیس برس بعد چودھویں صدی کا خاتمہ ہوا اور پندرھویں صدی ہجری کا آغاز ہوا۔ اور تو کوئی فرق نہ پڑا بس چودھویں صدی کو آخری صدی قرار دی جانے والی روایات کو ضعیف اور موضوع قرار دے دیا گیا۔ اب کوئی عالم دین ان کا تذکرہ کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اندازہ ہوا کہ روایات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضعیف و قوی ہوتی رہتی ہیں۔

جس وقت چودھویں صدی کا اختتام ہوا اس وقت میری عمر تقریباً 28 سال تھی اور میں پنجاب یونیورسٹی میں ملازمت کا آغاز کر چکا تھا۔ گزشتہ برسوں میں فلسفے میں نئے افکار و خیالات سے آگہی نے شعور کی دنیا کو بہت کچھ بدل دیا تھا۔ زندگی کے مسائل کو دیکھنے اور پرکھنے کے نئے طریقوں سے واقفیت ہو رہی تھی۔ پرانے پیمانوں کی شکست ہو رہی تھی۔ ملازمت کے ابتدائی برسوں میں مسلم فلسفے سے کچھ رغبت زیادہ تھی لیکن جیسے جیسے کارل پوپر کی کتابوں سے واقفیت بڑھتی چلی گئی سوچ کے زاویے بھی بدلتے چلے گئے۔ تاہم یونیورسٹی کا وہ زمانہ بھی اب قبل از تاریخ کا زمانہ لگتا ہے۔ کتاب چھپنے کے پندرہ بیس برس بعد پاکستان پہنچتی تھی۔ لائبریری میں فلسفے کا کوئی بیرون ملک چھپنے والا رسالہ دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ مجھے کئی برس تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ کارل پوپر ابھی زندہ ہے۔

لیکن جلد ہی ہم کمپیوٹر اور پھر انٹرنیٹ کے دور میں داخل ہو گئے۔ اس طرح معلومات و اطلاعات کے حصول کی رفتار میں بہت زیادہ سرعت آ گئی۔ یہ بیسویں صدی کی آخری دہائی تھی۔ یہ محض صدی کا اختتام ہی نہیں تھا بلکہ ایک نئے ملینیم کا بھی آغاز ہونے والا تھا۔ اس زمانے میں یہ خبر بہت مشہور ہو گئی تھی کہ 1999 کے بعد کمپیوٹر بے کار ہو جائیں گے۔  اس کو کے ٹو پرابلم قرار دیا گیا تھا۔ اس میں کمپیوٹر کمپنیوں نے کافی مال بنا لیا تھا۔ شور مچانے والوں نے یہ نہ سوچا کہ جن لوگوں نے کمپیوٹر بنایا ہے وہ اس مسئلے کا حل بھی نکال لیں گے۔ چنانچہ صدی ختم ہوئی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کتنا بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔

ان دنوں ملینیم کی تبدیلی کا بھی بڑا غلغلہ تھا۔ ہمارے ہاں لوگ یہ جانے بغیر کہ مسیحی دنیا میں ملینیم کی کیا اہمیت ہے اس پر سنی سنائی باتوں کا اعادہ کرنے لگے۔ مسیحی تاریخ میں حضرت مسیح کی وفات کے بعد پہلا میلینیم مکمل ہونے پر ان کی دوبارہ واپسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ مسیحی دنیا میں ان کی آمد سے پہلے دجال کی آمد کی بہت سی پیش گوئیاں بھی کی گئی تھیں۔ یہی پیش گوئیاں صلیبی جنگوں کے آغاز کا ایک بڑا سبب بنی تھیں۔ خیر میلینیم آیا اور گزر گیا نہ دجال کا ظہور ہوا اور نہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کا واقعہ رونما ہوا۔ ارباب کلیسا نے اس پر معذرت کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ اب دوسرا میلینم مکمل ہونے کو تھا، تاہم حضرت مسیح کی آمد کا اس بار اتنا بلند آہنگ ذکر نہ ہوتا تھا۔ لیکن پختہ ایمان کی کیا بات ہے۔ امریکہ سے کتنے ہی سچے مسیحی، جنھیں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد پر مکمل یقین تھا، ستر کی دہائی سے گھر بار، نوکریاں چھوڑ کر بیت المقدس میں آ کر مقیم ہو گئے تھے تاکہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا سب سے پہلے استقبال کرنے والوں میں شامل ہوں۔ بہر حال یہ دوسرا میلینم بھی پہلے والے ہی طرح گزر گیا لیکن جس واقعے پر ایمان تھا وہ نہ ہوا۔

ہیگل کے بعد فلسفے میں تاریخ کی دیوی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی تھی اور مختلف صدیوں کے مخصوص امتیازات گنوائے جانے لگے تھے۔ کوئی ایمان کی صدی ہے تو کوئی عقل کی اور کوئی سائنس کی۔ وقت کی ہر تبدیلی برحق ہے اور دانا انسان پر لازم ہے کہ وہ وقت کی رفتار کے ساتھ قدم ملا کر چلے۔ اسے روح عصر کا نام دیا گیا۔ ہیگل کو نپولین کی صورت میں روح عصر گھوڑے پر سوار دکھائی دی تھی۔  مراد بس یہ ہے کہ جو زمانے کا غالب رجحان ہے اس کے ساتھ شامل باجہ ہو جاو۔ ہمارے شاعر نے اسی روح عصر کو اپنی زبان میں یوں کہا تھا: چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ اردو کے  بہت سے تنقیدی مضامین یاد آ رہے ہیں جن میں میر و سودا کی صدی کے حوالے سے ان کی شاعری کا تجزیہ کیا جاتا تھا اور پھر صدی تبدیل ہونے سے غالب کی شاعری میں کیا تغیرات نمودار ہوئے۔ اب شاید تنقید کا انداز بدل گیا ہے۔

اب نیا سال شروع ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ان باتوں کو یاد کرنے کا مقصد بس اتنا ہے کہ اگرچہ اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں لیکن سال گزرنے کا مطلب بس کیلنڈر کی تبدیلی ہی ہوتا ہے۔ کسی سال کے بذات خود کوئی خصائص یا معنی نہیں ہوتے۔ اس کو بامعنی بنانے کے لیے ہمیں سعی و جہد کرنا پڑے گی۔ وقت کے متعلق ویسے تو میردرد نے کیا کمال شعر کہا ہے:

لے کر ازل سے تا بہ ابد ایک آن ہے

گر درمیاں حساب نہ ہو سال و ماہ کا

اب مرزا غالب کا برہمن تو ہمیں دستیاب نہیں جو بتائے کہ یہ سال اچھا ہو گا۔ دعا ہے کہ یہ نیا سال اس کرہ ارض کے انسانوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لائے، جو لوگ مختلف النوع آلام و مصائب کا شکار ہیں ان کی تکلیفوں کا ازالہ ہو۔ فیض صاحب کو یاد کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں:

دیس پردیس کے یاران قدح خوار کے نام

حسن آفاق و جمال لب و رخسار کے نام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments