انگریز کا ایجنٹ، وطن فروش اور کافر: اس ورثے سے کب جان چھوٹے گی؟


29 دسمبر 2019 کے روزنامہ اوصاف میں زاہد الراشدی صاحب کا ایک کالم ”مجلس ِ احرار ِ اسلام، تحریک ِ خلافت کا تسلسل“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ترکی میں عثمانی خلافت ختم کردی گئی تو ہندوستان میں تحریک ِ خلافت کا کوئی جواز نہیں رہا۔ اس تحریک کے دم توڑنے کے بعد پنجاب میں اس کے لیڈروں نے اپنا راستہ علیحدہ کر کے مجلس ِ احرار ہند کی بنیاد رکھی۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ اس تحریک کو افضل حق صاحب کا دماغ اور عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کی سحر انگیز خطابت مہیا تھی اور اس کی صف ِ اول میں مظہر علی اظہر صاحب جیسے قائدین موجود تھے۔

ان کی خدمات کی وجہ سے مجلس ِ احرار نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور ان میں مذہبی شعور پیدا کیا اور اس کارنامے کا سہرا مجلس ِ احرار کے سر پر ہے۔ مضمون کے آخری پیراگراف میں ایک دو سطروں میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ مجلس ِ احرار نے قیام ِ پاکستان اور مسلم لیگ کی کھل کر مخالفت کی تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔

اگر تحریک ِ پاکستان کے دوران کسی جماعت نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آج اس جماعت کو گردن زدنی قرار دے دیں۔ سیاسی معاملات میں ہر شخص اور ہر گروہ کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے اور ہر ایک کا حق تھا کہ وہ پاکستان کے نظریے کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔ لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ مخالفت کس انداز میں کی گئی اور یہ کہ مستقبل میں پاکستان کی سیاست کے انداز پر اس کا کیا اثر پڑا؟ لیکن اس جائزے میں یہ احتیاط کی جائے گی کہ زیادہ تر معین حوالے مجلسِ احرار ِ ہند کی کتب سے ہی پیش کیے جائیں۔

مجلس ِ احرار ِ ہند کی بنیاد دسمبر 1929 میں ڈالی گئی اور اُ س وقت سے لے کر 1939 تک احرار کا طریقہ کار کیا تھا؟ اُن کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے 1939 میں یہ بیان دیا تھا

” تشدد کا راستہ غلط ہے اور موجودہ دور میں اسلامی حکومت کا قیام تقریبا ً نا ممکن ہے، لہذا کانگرس کے ساتھ شامل ہو کر اور تمام قوموں کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرائیں اور جمہوری حکومت قائم کریں، چنانچہ اس وقت سے ہم [احرار] اس عقیدے پر قائم ہیں اور اسی راستے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ “ [حیات ِ امیر ِ شریعت ص 334 ]

جس طرح سیاسی دنیا میں چھوٹی جماعتیں بسا اوقات کسی بڑی جماعت سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ مجلس ِ احرار کانگرس کے ساتھ تھی اور مسلم لیگ کے ساتھ نہیں کھڑی تھی۔ اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنے راستے کا انتخاب کرے۔ لیکن احرار کا مسلم لیگ سے کیا تعلق تھا؟ افضل حق صاحب نے 1941 میں اپنے خطبہ صدارت میں اعتراف کیا

”ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھسنے کی کوشش کی تاکہ ا س پر قبضہ جمائیں۔ دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنا دیے گئے تا کہ ہم بیکار ہوجائیں۔ “ [خطبہ احرار جلد اول ص 95 ]

یعنی احرار کانگرس کے اتحادی تھے لیکن انہوں نے دو مرتبہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کانگرس کے اشارے پر نہیں تھا؟ اگر چور دروازے سے قبضہ جمانے کی کوشش نظر انداز بھی کر دی جائے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ انہیں مسلم لیگ پر کیا اعتراض تھا؟ 1939 میں جب قائد ِ اعظم مسلم لیگ کے صدر تھے، اُس وقت افضل حق صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا:

”لیگ کے ارباب ِ اقتدار جو عیش کی آغوش میں پلے ہیں۔ اسلام جیسے بے خوف مذہب کے مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے۔ مُردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع کرنا۔ ارباب ِ بصیرت غور کریں لیگ میں بجز سرمایہ کی کشش کے رکھا ہی کیا ہے۔ قربانی و ایثار سے لیگ کا جیب و دامان ابھی تک تہی ہے“ [خطبات ِ احرار جلد اول ص 2 1 و 22 ]

احرار کی مجلس ِ عاملہ نے قرارداد منظور کی

” مسلم لیگ کی قیادت قطعی غیر اسلامی ہے۔ اس کا عمل آج تک ملت ِ اسلامیہ کے مفاد کے خلاف رہا ہے۔ “ [حیات ِ امیر شریعت ص 355 ]

اس کا بعد جو انتخابات ہوئے تو اس میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کے قائدین کو اپنا لیڈر بنا لیا اور احرار کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ باوجود اس کے کہ احرار اپنے آپ کو بہادر اور مسلم لیگ والوں کو بزدل سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ احرار مسلم لیگ سے علیحدہ کس لئے رہتے تھے؟ اس کے بارے میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اور دوسرے علماء ایک دوسرے کو یہ کہتے تھے کہ مسلم لیگ تو سرکار پرستوں کی ٹولی ہے۔ یعنی برطانوی سرکار کے کاسہ لیس ہیں۔ [حیات ِ امیر شریعت ص 257 ] اور اُن کے مطابق مسلم لیگ والے انگریزوں کے ایجنٹ تھے جو کہ مسلمانوں کو انگریزوں کی آغوش میں ڈال رہے تھے [خطبات ِ احرار جلد اول ص 20 ]

یہ تو دشنام طرازی تھی۔ لیکن قائد ِ اعظم سے انہیں کیا اختلاف تھا؟ اس کے بارے میں احراری لیڈر مظہر علی اظہر صاحب نے یہ شعر مشتہر کیا

اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا

یہ قائد ِ اعظم ہے کہ ہے کافر ِ اعظم

مظہر علی اظہر

اور پھر پاکستان بننے کے بعد مظہر علی اظہر صاحب نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ وہ اب تک اسی نظریہ قائم ہیں۔ [رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص 11 ]اس طرح احرار نے سیاست میں فتووں کا دروازہ کھولا۔ احرار نے قائد اعظم پر صرف یہ فتویٰ نہیں لگایا بلکہ ان پر اس بھیانک سازش کا الزام بھی لگایا کہ وہ مسلمان اکثریت کا علاقہ سکھوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا:

”اب مسٹر جناح نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے نظریہ کو اپنا لیا ہے اور سکھوں کی علیحدہ سلطنت بنانے کا حق تسلیم کر کے پنجاب میں جمنا سے لے کر راوی بلکہ چناب تک کا علاقہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا درست قرار دیا ہے۔ “ [حیات ِ امیر شریعت ص 354 ]

بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ الزام صرف ایک جھوٹ تھا۔ زاہد الراشدی صاحب نے کالم میں لکھا ہے کہ آزادی کے بعد احرار نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ لیکن ملاحظہ کریں کہ کس شان سے کی؟ ایک احراری لیڈر نے 1953 میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کو ’پلیدستان‘ قرار دیا۔ اور احرار کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان ایک بازاری عورت ہے۔ جسے احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے۔ “ [رپورٹ تحقیقاتی عدالت 1953 ص 275 ]

سیاست میں ایک دوسرے کو مغربی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دینے کا رواج اُس وقت سے چلا ہے اب تک ختم نہیں ہوا۔ اُس وقت قائد ِ اعظم کو پنجاب فروش قرار دیا گیا تھا اور آج کل جس کی مخالفت کرنی ہو اسے کشمیر فروش قرار دے دیتے ہیں۔ اور اُس وقت قائد ِ اعظم پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا اور مسلم لیگ کی ساری قیادت کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔ اس فن کو تو اب پہلے سے بہت زیادہ ترقی دی جا چکی ہے۔ آخر ہم احرار کے اس سیاسی ورثے سے کب جان چھڑائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments