مقبوضہ کشمیر: سسکتی انسانیت، دندناتی بربریت!


ٹپکتا خون، سسکتی آہیں، جلتی بستیاں، چھینتی بنیائی، بے گوروکفن لاشیں، بلکتا بچپن، بھوک سے بے تاب ادائیں، بے حرمت خواتین، لہو روتی لاچار ممتائیں، لہولہان گلیاں، انسانی خون کی بہتی ندیاں، ویرانی وتاریکی میں تبدیل ہوتی بستیاں، ملبے کے نیچے دفن ہوتی معصوم کلیاں، فضا میں بلند ہورہی روح فرسا چیخیں، اجڑتے محلے، جلتے مکانات، ان سب کو ملانے سے اگر کسی چیز کی تصویر بنتی ہے تو اس کا نام ہے وادیِ کشمیر۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا تسلسل ’کرفیو لگے 151 دن گزر چکے‘ نظامِ زندگی مفلوج ’کشمیریوں کو تقسیم کشمیر نامنظور، ظالمانہ کرفیو توڑ کر مظاہرے، بھارتی فورسز بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر پاکستان چلے جائیں، کھلے عام گولی مارنے کی دھکمیوں پر اتر آئی۔

ٍ دُنیا بھر کے درندوں کی درندگی ایک طرف اور بھارت کے سفاکی، درندگی ایک طرف، دُنیا میں بڑے سے بڑے ظلم وجبر کے سورما گزرے، چشم فلک نے ہلاکوخان کی تباہی کو بھی دیکھا اور چنگیز خان کی چنگیزی کا بھی نظارہ کیا؛ لیکن دور حاضر کے ہلاکوؤں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، وادی کشمیرمیں بربریت، ظلم وجبر کے سارے ریکارڈ توڑ دیے گئے، کشمیر کی گلیاں اور اس کی شاہراہیں بے قصوروں کے خون سے رنگین ہیں، وہاں کی ہر شام، شامِ غریباں اور ہر صبح، صبحِ قیامت کا منظر پیش کررہی ہے، ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہیں، جگہ جگہ انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں، محلے کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں، وادی کشمیر میں جوکچھ ہورہا ہے وہ کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں، قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔

ہندوستان نے جنوبی ایشیاء کے خطے کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ بھارت نے اپنی آخری چال بھی چل دی ہے، اب اس کے پاس کچھ کرنا کا رہا ہی نہیں ہے۔ 151 ایام سے جاری بدترین کرفیو/لاک ڈاون نے پوری وادیِ کشمیرکو قبرستان میں بدل کر رکھ دیا ہے، خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی بے حسی کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ اذیت ناک تشدد کے باعث مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں مل رہی ہیں۔ خواتین کی بے حرمتی اور بے گناہ افرا اد بشمول بچوں کو گرفتار کرکے بھارت کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ نریندرمودی کی مسلمان دشمنی مکمل طورپر بے نقاب ہوچکی ہے۔ گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرنے والا اب آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی بھارتی شہریت کو ختم کرکے ان کو ملک بدرکرنے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔

عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مظالم کے خلاف آوازیں تو بلند کررہی ہیں اور تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے، لیکن ان کی طرف سے عملی طور پر بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کے لئے کوئی اقدام سامنے نہیں آرہا۔

5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پر ساٹھ سال بعد پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں پاکستان اور کشمیرکے عوام کے موقف کی کھل کر حمایت کی گئی ’علاوہ ازیں کئی دوسرے ممالک نے بھی بھارت کے اس جبری کرفیو پر اظہار تشویشں کیا، مگرآآج تک بھارت کے انسانیت دشمن کرفیو، پابندیوں سے مظلوم کشمیریوں کوآزادی کی کوئی ٹھوس حکمت عملی طے نہ کی گئی۔

اقوام عالم کی خاموشی نے بھارت کے حوصلے مزید بڑھا دیے، بھارت کا جنگی جنون مقبوضہ کشمیر تک ہی نہیں محدود، بلکہ بھارت آزاد کشمیر میں مخلتف سکیٹرزمیں سول آبادی پر فائرنگ شیلنگ کررہا ہے، جس سے متعدد کشمیری شہید ہوچکے۔ بھارت کی جانب سے جنوری 2019 سے اب تک 3000 سے زیادہ مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کی جاچکی ہیں، 300 سے زیادہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ اب بھارت کا جنگی جنون اس حد تک آ پہنچا کہ ایل او سی پر کچھ جگہوں پر بھاڑ کاڑ کر میزائل کی تنصبات کی جا رہی ہیں۔

درحقیقت بھارت کسی بھی صورت پاکستان کو اشتعال دلا کر جنگ پر آمادہ کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنی سفارت کاری کے ذریعے کنٹرول لائن اور وادی کشمیر میں بھارتی بربریت کا پردہ چاک کررہا ہے۔

پاکستان عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو بارہا آگاہ کرچکا ہے کہ وہ بھارت کے جنونی ہاتھ روکیں ورنہ اس خطہ سمیت کرہ ارض بھی اس کے جنون کا شکار ہو جائے گا۔ عالمی برادری محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی پاللیسی اپنائے ہوئے ہے۔

اس وقت وادی میں کشمیریوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہوچکی ہے، مواصلاتی نظام بدستور بند ہونے سے کشمیری عوام کے باہر کی دُنیا سے رابطے منقطع ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں کشمیر ایوان صنعت وتجارت نے کہاہے کہ 5 اگست کو بھارتی حکومت کی طر ف سے فوجی محاصرہ شروع کیے جانے کے بعد کشمیر کی معیشت کو 100 کروڑ روپے کا نقصان پہنچ چکاہے۔

کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق کے سی سی آئی نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے الگ الگ شعبوں میں نقصان کی ایک جامع رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاکہ نقصان کاتخمینہ 2017۔ 18 ء میں جموں وکشمیر کی مجموعی پیداوار کی بنیاد پر لگایا یا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں وادی کشمیر کے 10 اضلاع پر جو جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 55 فیصدہے، توجہ مرکوز کی گئی ہے اور یہ اعداد و شمار 120 دنوں پر مشتمل ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے انٹرنیٹ سے متعلق امورپرنظررکھنے والے بین الاقوامی ادارے ناؤ ایکسیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی طویل معطلی، کسی بھی جمہوریت میں طویل ترین معطلی ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ 5 اگست کوبھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم اور پابندیاں عائدکئے جانے کے بعد وادیِ کشمیر کے 70 لاکھ لوگوں کو اچانک ماقبل انٹرنیٹ دور میں دھکیلا گیا، ادارے نے کہاکہ اس اقدام کے بعد تمام مواصلاتی ذرائع کو معطل اور سیاسی رہنماؤں کو نظربند کیاگیا۔

کشمیرمیڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 1947 ء سے جاری بھارتی مظالم کے باعث 35 لاکھ سے زائد کشمیری مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

بھارت کی مسلسل ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے گزشتہ 30 سال کے دوران 40 ہزار سے زائد کشمیریوں کو ہجرت کرنا پڑی اوروہ جموں و کشمیر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ادھر بھارت کے سابق وزیر یشونت سنہا کی سربراہی میں قائم کنسرنڈ سٹیزنز گروپ نے نئی دلی میں جاری ایک نئی رپورٹ میں کہاہے کہ وادی کشمیر کے عوام کو اس بات کا خوف ہے کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کے لئے غیر کشمیریوں کو وادی کشمیر میں آباد کرنا چاہتا ہے۔

گروپ نے کشمیر کے دو دوروں کے بعد جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں جموں و کشمیر اور لداخ کے دوبارہ انضمام کامطالبہ کیا ہے۔

بھارت کا بنیادی مقصد ہی خطہ کے امن کو خطرات سے دوچار کرنا ہے، کبھی ایل او سی پر بلا اشتعال نہتے سول آبادی پر فائزنگ، کبھی دریاوں کے پانی کا مسئلہ، کبھی غیر قانون ڈیمز کی تعمیر، پاکستان کو بنجر کرنے کی دھکمیاں، اور پھر بھارت کے کئی منصوبوں سے پردہ چاک ہو چکا،

بیلجیم میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت کاجعلی ویب سائٹس کا ایک نیٹ ورک دُنیا بَھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔

یورپی یونین کی ڈس انفارمیشن لیب نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ 65 سے زائد ممالک میں 265 جعلی نیوز سائٹس کا پتہ لگایاگیا ہے جن کو ایک بھارتی نیٹ ورک چلا رہا ہے۔

بھارت ان سب اوچھے ہتکھنڈوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام ہو چکا۔

اقوام عالم، انسانی حقوق کی تنظمیوں کو فوری طور پر انسانیت سوز مظالم کا نوٹس لے کر بدترین کرفیو سے نجات دلانی چاہیے، کیونکہ اگر 90 لاکھ جانور بھی اس طرح کی صعوبیتں برداشت کر رہے ہوں تو، اقوام ِ عالم مضطرب ہو جائے، مگر افسوس کے 90 لاکھ انسانی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں، اور ہم بے حس ہیں۔ جو ایک انسانی المیہ کا موجب بن سکتی ہے، آزادی انسان کا بنیادی حق اس سے محروم کرنا، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

افسوس کشمیر کی سرزمین پر تباہی دندنارہی ہے اور انسانیت سسک سسک کر آخری سانسیں گن رہی ہے، اور ساری دُنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments