عقلیت پسندی اور اس کا معاشرتی نفاذ


سیکیولرزم اور سیکیولرائیزیشن کے عمل میں فرق بھی ہے تو یہ یکساں بھی ہے۔ جسے ہم اس تحریر کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ مغرب میں 19 ویں صدی کے عظیم فلسفی و عقابرین آگسٹ کومٹ، ہربرٹ اسپینسر، درخائم، میکس ویبر، کارل مارکس، اور فرائڈ وغیرہ اس خیال سے سہمت تھے کہ صنعتی معاشرہ کی ارتقا سے چرچ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت و طاقت کھوتا چلا گیا۔ روشن خیالی کے زمانے سے فلسفے، علم الانسان اور نفسیات کو یقین تھا کہ مذہبی توہم پرستی، تمثیلی کلیسائی رسومات، اور پاکیزہ مشقیں ماضی کی پیداوار ہیں۔ لہٰذا جدید زمانے میں وہ متعلقہ نہیں رہ سکیں گی۔

واقعی بھی 20 ویں صدی میں سماجی سائنس، ایجادات، افکار کی ارتقا کے ابھار کی وجہ سے مغرب میں مذہبی روایات مکمل طور پہ غیرواسطیدار ہو گئیں۔ نوکر شاہی کے ابھار، عقلیت پسندی کے عام ہونے اور شہری ہونے کے عمل نے یورپ کی شکل ہی تبدیل کر دی۔ سی رائیٹ ملز اپنی کتاب ”معاشرتی تخیل“ میں لکھا ہے کہ ”ایک زمانہ تھا، جب دنیا مذہبی سوچ یا خیال، مشق یا ادارتی شکل میں طاقتور تھی۔ مذہبی اصلاحات کی تحریک ریفارمیشن اور حیات نو کی تحریک ریناساں نے تمام تر دنیا کو اپنے حصار میں کر لیا اور اس طرح سیکیولرائیزیشن کے عمل اور حالت نے مقدسیت پہ غلبا پا لیا۔ وقت گزرتے مقدسیت تمام تر دنیا سے غائب ہو گئی، ہو سکتا ہے کہ کسی نجی حاکمیت کے اندر برقرار ہو۔ مگر کیا وقت گزرنے کے ساتھ عقیدے یا مقدسیت کا خاتمہ آیا ہے۔ اور سیکیولرزم انہیں چھوڑ کر آگے نکل چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ آج بھی نصف دنیا میں موجود ہے۔ “

اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ سیکیولرزائیزیشن کا نظام یورپ میں ابھرا اور زیادہ تر وہاں ہی ارتقا پائی اور یہ دنیا کے دیگر حصوں میں تیزی سے نہیں پھیلا۔ جس تیزی سے یہ یورپ میں پھیلا۔ مثلا مغربی دنیا نے اس نظریے کو محض اپنے لیے کافی سمجھ کر اسے اپنی ریاستوں میں نافذ کیا اور اس کا ثمر حاصل کیا۔ گو کہ مغرب میں کتنے ہی ممالک ایسے ہیں، جوکہ اب تک جزوی طور سیکیولر ہیں۔ ان ممالک میں بادشاہی اور چرچ کے اثر والے زمانے کی روایات آج بھی موجود ہیں۔

درحقیقت مسئلہ یہ بھی ہے کہ چند ریاستیوں نے آئینی طور خود کو سیکیولر قرار دیا ہے، لیکن انہوں نے سماجی سطح پہ لوگوں کے سیکیولرائیزیشن کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، جس کی وجہ سے ریاستی سطح پہ آئین میں سیکیولر بندوبست ہوتے ہوئے بھی، آئینی بندوبست عام لوگوں کے مزاج کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ مثلا یورپی ممالک کی اکثریت میں رنگ و نسل کے امتیاز کو ختم کرنے کا آئینی بندوبست موجود ہے۔ لیکن وہاں کی ریاستیں اور لوگوں کا رویا آفریقی و ایشیائی لوگوں کے خلاف کافی سخت ہے۔

سفید فام کو آج بھی سماجی، سیاسی اور ثقافتی برتری کے احساس کے طور پہ قبول کیا جاتا ہے۔ دوسری مثال پڑوسی ملک بھارت کی ہے، جوکہ آئینی طور ایک سیکیولر ملک ہے مگر ماضی قریب میں بی جے پی جیسی انتہاپسند پارٹی مسلسل انتخابات میں کامیابی لے کر اقتدار میں آتی رہی ہے۔ اور کانگریس جو کہ بھارت کی سیکیولرزم کی محافظ سمجھی جاتی ہے، وہ شکست کھا رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بھی مذہبی انتہاپسندی طاقتور ہو رہی ہے۔

واضح نکتہ یہ ہے کہ سیکیولرزم اپنی نوعیت میں ایک ریاستی نظام ہے۔ جبکہ سیکیولرائیزیشن کے عمل کا واسطہ ریاست کی بجائے معاشرے سے وابستہ ہے یا پھر یہ ایک سماجی عمل ہے، جس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ریاستوں نے بس اتنا ہی کافی سمجھا ہے کہ انہوں نے خود کو سیکیولر قرار دے دیا اور اس طرح انہوں نے سمجھا کہ کام ختم ہو گیا۔ دراصل ریاستی سطح پہ موجود سکیولرزم کو بھی طاقت اور دوام تب کی مل سکتا ہے، جب سماجی سطح پہ سیکیولرائیزیشن کا عمل تیز اور مسلسل کرنے کے لیے شعوری کوشیشیں کی گئی ہوں۔ سیکیولرائیزیشن کے عمل میں ییہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ وہ ریاستیں جو مذہبی ہیں، وہ سیکیولرزم سے کتراتی ہیں، مثلا اسلامی ریاستٰیں، وہ بھی سماجی نوعیت کے چند بہتر اقدار کو ماننے میں پہل کر سکتیں ہیں۔ کیونکہ دو چار اقدار لاگو کرنے سے، پوری ریاست کے سیکیولر ہونے کا خطرہ وہ محسوس نہیں کریں گٰیں۔

سیکیولرزم ایک سیاسی نظام ہے جوکہ کسی بھی ریاست کے بنا نفاذ نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ سیکیولرائیزیشن کا عمل کسی بھی ریاست کا تقاضا نہیں کرتا، اور اس عمل کو خوامخوہ بھی روایتی سیکیولرزم کے یورپی ابھار کے پسمنظر میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں کئتھولک چرچ تھا، جوکہ لوگوں کی زندگی کے لیے عذاب بن گیا تھا۔ پھر لوگوں نے چرچ کے خلاف لڑائی لڑی اور رواداری کا راستہ اختیار کیا اور تحریک چلا کر ریاست کو چرچ کے تسلط سے آزاد کروایا۔ اس طرح سیکیولرزم اور سیکیولرائیزیشن کا عمل شروع ہوا۔

سیکیولرائیزیشن کے عمل کی سنگ بنیاد یورپی نوعیت نہیں، لیکن ان کی روایتی تاریخ میں کافی قدیم ہے۔ اس کی پیدا ہونے کا عمل سماجیاتی نوعیت ہے، دنیا کے طاقتور مذاہب میں جو بھی اصلاحات آئے ہیں، وہ بھی ایک طرح سے سیکیولرائیزیشن کے عمل کے ذمرے میں آتے ہیں۔ جن کی وجہ سے معاشروں میں مذہبی اثر چاہے انتہاپسندی میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔ دنیا کے تمام تر مذاہب میں تصوف کا ابھار بھی سیکیولرائیزیشن کے عمل کا ایک ابتدائی مظہر ہے۔

اس کے علاوہ عیسائیت کے کیتھولک فرقے میں سے پروٹسیٹنٹ فرقے کے جنم نے بھی سیکیولرائیزیشن کے عمل فروغ دیا۔ اس طرح قدیم ہندستان میں آریاؤں کی سخت مذہبی نظام میں بدھ مت کے پیدا ہونے نے بھی سیکیولرائیزیشن کو فروغ دیا۔ لہٰذا سیکیولرائیزیشن کا عمل، اوائلی معاشروں اور تہذیبوں میں موجود رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیکیولرائیزیشن کا عمل ثقافت سے مل کر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وسیع تر سماجیاتی لحاظ سے مذہب یا عقیدہ بھی ثقافت کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

جو کہ دیگر ثقافتی اقدار سے مل کر فرد، خاندان اور معاشرے پہ اثرانداز ہوتا ہے۔ سیکیولرائزیشن کا عمل معاشرے میں نچلی سطح سے داخل ہوکر حرکت میں آتا ہے اور اس کا سب سے پہلا تصادم توہم پرستی، تقدیر پرستی اور اندھا اعتقاد سے ہوتا ہے۔ سیکیولرائیزیشن کا عمل جب ادارتی سطح پہ مضبوط ہوتا ہے تو وہ سماجی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جدید صحت کی سہولیات ایک سیکیولر عمل ہے۔ ماضی میں لوگوں کا علاج جھاڑ پھونک سے کیا جاتا تھا، مگر اب دواؤں سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں جدید تعلیم کو بھی سیکیولر اقدار سے ضم کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کو دیکھنے میں فرق آتا ہے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ سیکیولرائیزیشن کا عمل ایک طرح سے سماجی تبدیلی کا ہی عمل ہے، جس کے تیز ہونے سے مذہبی خصوصیات، روایات اور مذہبی اداروں کی حیثیت کم یا غیر واسطیدار ہو جاتی ہے۔ معاشرہ عقلیت پسندی، سائنس اور جدید علوم پر دارومدار کرکے آگے بڑھنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments