آرمی ایکٹ میں ترمیم سول سپریمیسی کے خلاف کیسے ہے؟


نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ میں تماشا حکومت کا جو ہونا تھا ہوا ہی مگر مذاق تو ہمارے نظام کا بنا جب قا نون کی پٹاری ہی بانجھ نکلی۔ اس ملک کی تخلیق سے اب تک سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے فوجی حکمران کسی آئین کے تحت تو نہیں آئے تھے مگر کسی قانون کے دائرہ کار میں بھی نہیں تھے یہ معلوم ہونے کے بعد عقل ٹھکانے نہیں آئی ہے تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔

جنرل محمد ایوب خان نے صدر محمد ایوب خان سے فیلد مارشل کا مرتبہ پا کر حکم نامہ جیب ڈال دیا اور ایوان صدر میں ایک دہائی گزاری۔ صدر محمد ضیاءالحق نے جنرل ضیا ءالحق کو گیارہ سال اس ملک پر مسلط کئے رکھا۔ مشرف نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بغیر نوٹس کے کسی چپراسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کر سکتے تو انھیں کس قانون کے تحت برطرف کر دیا۔ پھر خود ہی بحیثیت صدر خود کو بطور جنرل مدت ملازمت میں توسیع دیا اور نو سال تک سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔ کسی نے پوچھا نہیں کس قانون کے تحت یہ سب ہوا؟

چلئے یہ تو سب آمر تھے انھوں نے آئین توڑا تھا تو قانون کی کیا حیثیت ان کے سامنے۔ وہ جو آئین اور جمہوریت کی راگ دن رات الاپنے والی پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی سفارش کی تو آصف زردادری نے بطور صدر منظوری دی مگر کسی نے نہیں پوچھا کس قانون اور ضابطے کے تحت ایسا ہوا؟

پہلی بار کسی جج نے اس طرف دھیان دیا اور کسی عادی درخواستی کی غیر سنجیدہ قسم کی پٹیشن پر چند بنیادی سوالات پوچھ لئے تو معلوم ہوا کہ ہمارا نظام کتنا بانجھ ہے۔ قانون کے پوچھے سوالات کا جواب دینے کے لئے پہلی بار ایسا ہوا کہ قانون جاننے والے اور نہ جاننے والے سب اکھٹے ہوئے، حزب اختلاف اور حزب اقتدار بھی ایک ہوئی ، وزیر قانون نے بقلم خود وکالت کی مگر جواب تلاش نہ کر سکے۔

جج صاحب نے تو سادہ سا سوال پوچھا تھا کہ کسی بھی شخص کو کہیں بھی ملازمت پر رکھنے کے لئے ایک ضابطہ کار ہوتا ہے تو کیا ایک ایٹمی ملک کےسپہ سالار کے لئے بھی کوئی ایسا کوئی قانون، اصول، ضابطہ موجود ہے؟ جب قانون کی کتابیں کھنگالی گئیں، دستور کو ایک بار پھر حسب ضرورت پڑھا گیا اور آرمی ایکٹ کو صیغہ راز سے نکال کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ کہیں بھی ملازمت پر رکھنے، توسیع دینے اور برطرف کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ ایک چوکیدار اور چپراسی کے لئے بھی عمر کی حد اور ملازمت کی اہلیت مقرر ہوتی ہے مگر 22 کروڑ کے ملک کے طاقتور عہدے کے لئے کوئی حدود نہیں۔

اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ملا کہ روایت بن گئی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف تین سال کے لئے مقرر ہوتا ہے جس کی مدت ملازمت میں صدر پاکستان توسیع بھی دیتے رہے ہیں۔ اس سے ایک اور خوفناک سوال پیدا ہوا کہ روایت تو یہاں چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے آئین معطل کرکے مارشل لاء لگانے کی بھی ہے تو کیا اس کو بھی معمول کی کارروائی سمجھ لینا چاہیئے؟

حکومت نے خود ہی اقرار کیا کہ ملک کے سپہ سالار مقرر کرنے، اس کی مدت ملازمت یا عہدیداری میں توسیع دینے یا سبکدوش کرنے کے لئے قانون نہیں ہے۔ حکومت نے خود ہی وعدہ کیا کہ اگلے 6 ماہ میں ایسا قانون بنا کر اس سقم کو ختم کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ کے سامنے لاجواب حکومت کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لئے عدالت نے چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع دیکر اس معاملے کو سلجھانے کا موقع فراہم کر دیا۔

گزشتہ دو دن سے وفاقی دارلحکومت میں ہلچل ہے۔ حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی کابینہ سے منظوری لی ہے اور اب وہ پارلیمان سے اس کی منظوری کی خواستگار ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنے ہی وعدہ پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے حکم امتناہی کی درخواست بھی گزاری ہے۔ یہ دونوں باتیں جو ایک دوسرے کی متضاد ہیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔

حکومت نے ایک دم اپنی ہٹ دھرمی، ضد اور انا پرستی کی روش چھوڑ کر حزب اختلاف کے آستانوں کی زیارت شروع کر رکھی ہے۔ ایک وفد نے سب سے بڑی بیماری کہلانے والے زردادری کے ڈیرے کا دورہ کیا ہے اور ساتھ ہی سرٹیفائیڈ چور نواز شریف کے ساتھیوں کی قدم بوسی بھی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ حکومت کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کو منظور کروانے کے لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔

حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس ترمیم کی حمایت کے عندیے پر ہمارے اہل قلم و اہل دانش میں ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ کوئی اس حمایت کو تھوک چاٹننے سے تشبیہ دے رہا ہے تو کوئی اس کو یو ٹرن کہتا ہے کچھ اس کو نظریاتی موت قرار دے رہے ہیں۔ مگر بنیادی سوال کی طرف کوئی آنے کو تیار نہیں اس قانونی سقم کو رہنے دیا جائے تو اس کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟

کل تک کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس ملک کے سپہ سالار کی تعینیاتی اور سبک دوشی کے لئے کوئی ایسا قانون موجود نہیں مگر آج نہ صرف ملک کا بچہ بچہ اس بات کو جانتا ہے بلکہ ساری دنیا پر بھی یہ راز آشکار ہو چکا ہے۔ کسی ایٹمی ملک کی فوج کے سربراہ کی تعیناتی اور سبکدوشی کے بارے میں قانونی سقم ایک بین الاقوامی تشویش کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اس لئے ایسی قانون سازی میں حصہ نہ لینے کا مشورہ دینے والوں کی منطق میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیا اس قانون سازی کے عمل میں عدم شرکت سے اس اہم عہدے پر تعیناتی کے لئے موجود قانونی سقم کو رہنے دیا جائے یا پھر اس عمل میں حصہ لے کر اس قانون کو عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق بنانے کی کوشش کی جائے؟

پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر اور تاریخی پس منظر میں کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ مخالفت اور عدم تعاؤن اس لئے کیا جائے کہ ایسی قانون سازی سول سپریمیسی یا عوامی راج کے خلاف ہے۔ مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی، سبکدوشی اور توسیع کا اختیار منتخب وزیر اعظم کو دینا کس طرح عوامی راج کے خلاف ہے۔

پارلیمان سے کسی جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا نہیں کہا جارہا ہے بلکہ فوج کے سربراہان کی تعیناتی، برطرفی اور توسیع کا اختیارمنتخب وزیر اعظم کودینے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے جو پہلے بطور روایت رائج تھی۔ کون کس کی تعیناتی کرتا ہے سبکدوش کرتا ہے یا توسیع دیتا ہے یہ منتخب وزیر اعظم کی صوابدید ہے جو عوامی راج یا سول سپریمیسی کے عین مطابق ہے۔

ہاں مگر اس قانون سازی کے دوران بحث و مباحثے کا بھر پور موقع دے کر نہ صرف پارلیمان کے ارکان کو اس بارے میں اپنی آراء سے عامتہ الناس کو آگاہ کرنے کا موقع دینا چاہیئے بلکہ ابلاغ عامہ میں بھی اس موضوع پر سیر حاصل بحث و تمحیث کے ذریعے آگاہی کا موقع ملنا چاہیئے تاکہ عام و خاص میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا شعور پیدا ہوسکے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments