اب آپ کے ووٹ کو عزت ملی ہے


مسلم لیگ ن کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے ترمیمی بل کی حمایت نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پاکستان کی ایک بڑی آبادی نواز شریف کے سول سوپرمیسی کے بیانیے کو اپنے نظریات سے ہم آہنگ اور اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔

کسی بھی طرح، ان طاقتوں کے ہاتھوں ستائے لوگ نواز شریف کو نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ نواز شریف اس جبر و ظلم کی چکی میں پس کر اپنی جان دے دے تا کہ انھیں اپنی دشمن کو نیچا دکھانا آسان ہو جائے۔

اِس جھنڈے کو سربلند رکھنے کی کوشش میں نواز شریف نے اپنی پی ایم شپ کھو دی، سینٹ کے الیکشن میں پیچھے نہ ہٹنے پر جوتا کھایا، کفر کے فتوے برداشت کیے، اپنی بیمار بیوی کا ساتھ چھوڑ کر وطن واپس آئے جیل کاٹی اور بیٹی کے ساتھ گرفتار ہوئے پھر ان کے سامنے اُن کی بیٹی کو گرفتار کیا گیا۔ ایک ایک ساتھی، ہمدرد اور مخلص دوست کو زندان میں ڈالا گیا۔ اچھے ایماندار اور قابل افسر وں کو رسوا کیا گیا عبرت کا نشان بنایا گیا۔ مگر نواز شریف سے اس بیانیے پر جان دینے کی امید رکھنے والوں نے ایک روز بھی جیل کے باہر عوامی طاقت کا مظاہرہ نہ کیا۔

آج وہ دوست بھی مسلم لیک کے اِس اقدام پر شور و غل مچا رہے ہیں جو اِس دوران ایک دن بھی اپنی دکان دفتر اور گھر سے باہر نہ نکلے۔ وہ میڈٰیاہاؤسسز جو چند دن آف ائر ہونے کے ڈر سے ہر جائز و ناجائز مطالبے مانتے رہے اب وہ بھی نواز شریف سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی جان دے کر اُن کے دشمنوں کو ایکسپوز کرے۔

کیا ہمیں یاد نہیں کہ نواز شریف نیب کی قید میں زندگی و موت کی کشمکش میں تھے، سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کے چند کارکن چیخ چیخ کر لاہوریوں کو نیب آفس کے باہر اکٹھا ہونے کو کہہ رہے تھے۔ مگر چند سو آدمی بھی باہر نہیں نکلے تھے۔ یاد رکھا جائے کہ شاعر کی سانسیں اگر واہ واہ کرنے والوں کی وجہ سے جلتی ہیں تو سیاست دان کی زندگی کا دیپ عوامی جذبات اور مجمع دیکھ کر بھڑکتا ہے اور اگر عوام اپنے لیڈر کو ظالم دشمن کے ہاتھ میں اکیلا چھوڑ دے تو پھر اُسے یہ حق نہیں کہ اب لیڈر سے جواب مانگے۔

مجھ سمیت کئی لوگ فیس بک پر ملی چند دھمکیوں اور ایک دو رانگ نمبر سے آئی کالز سے ہی اپنے بلوں میں واپس جا گھسے تھے اب ہم کس منہ سے نواز شریف سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی ساری سیاسی کھیتی، زندگی کی جمع پونچھی عزت وقار اور سیاست کسی بے وقوف سپاسالار کی طرح خطرے میں جھونک دے اور پھر اِس ملک میں کوئی دوسرا اُس کی قبر اور لاش کو لے کر سیاست کرے۔ تاریخ اس کا نوحہ لکھے اور بھٹو کی طرح اس کی روح گلی گلی تڑپ کر زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی رہے۔

مشرف کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد وہ لوگ جو نواز شریف کی چمیاں لیا کرتے تھے، دشمن کے ساتھ مل گئے تھے۔ چوہدری برادران، شیخ رشید، یہ سید، اعوان، ٹوانے، راجہ اور کھوکھر سب نے چند وزارتوں اور ذاتی مفادات کو اس کی جان کا سودا کر دیا تھا۔ ایسے میں صرف کلثوم نواز ہی باہر نکلی تھی نا؟ اگر آج تنقید کرنے والا کوئی اُس دور میں اپنی نوکری یا کاروبار چھوڑ کر اِس کے لیے سربازار رسوا ہوا تھا تو اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ نواز شریف کا گربیان پکڑ کر اپنی دی قربانی اور اس کی بے وفائی کا پوچھے۔

محکمہ زراعت کے ایک اہلکار کی آمد پر اپنی وفاداریاں بدلنے والے، ایک کال پر انتخابی نشان واپس کرنے والے یا نواز شریف کو اقتدار سے باہر پھینکے پر خاموش رہنے والے سیاست دانوں اور ووٹرز کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ نواز شریف سے آج اپنا بیانیہ بدلنے پر سوال کریں؟

خوابوں میں رہنے والے لوگ اکثر بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔ کم از کم میں اُن لوگوں میں سے نہیں، میں حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کا مقابلہ کرنا ہی مناسب سمجھتا ہوں۔ گولی بندوق اور نفرت بھرے نعروں کے بجائے ملک میں موجود طاقتوں کے ساتھ سمجوتہ کرنا ہی مناسب اقدام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اُس طاقت کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے یا نہیں۔ یہ ملک ان کا بھی ہے اس کی بنیادوں میں لہو سب کا شامل ہے۔ اس کی ترقی عزت اور حفاظت ان کا بھی نسب العین ہے اور اگر وہ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ مل کر ملکی ترقی پر کام کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟

اگر ان کے رویوں میں لچک ہے تو بے موت مرنے سے بہتر ہے کہ فلحال ظالم و جاہل حکمران کے زندان سے نجات پائی جائے اور پھر طاقت حاصل کر کے اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ جیسا کہ اِس سے قبل مشرف دور میں کیا گیا تھا۔ کیا اگر نواز شریف اپنی ضد انا اور مجھ جیسے جذباتی ووٹرز کو دکھانے کے لیے مشرف دور میں ہی پھانسی لگ جاتا تو آج علامتی طور پر ڈی چوک میں لٹکتے مشرف کو کس نے دیکھا ہوتا؟ کس نے منہ زور ہاتھی کی سونڈ مروڑی ہوتی؟

مسلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کے کارکنوں کے علاوہ چند ایسے انقلابی دوست بھی اس بیانیے پر نواز شریف کے ہم زبان ہو گئے ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر کسی دوسرے گروپ یا پارٹی سے رہا ہے۔ جن کی سوچ ہمیشہ سے انٹی اسٹبلشمنٹ رہی مگر وہ ساری زندگی کچھ حاصل نہ کر پائے تو اب ان کی کوشش ہے کہ نواز شریف کو استعمال کیا جائے تا کہ جیتیں بھی تو واہ واہ اور اگر ہاریں بھی تو بازی اپنی رہے۔ اس میں دیگر ملکوں سے کام کرتی سوشل میڈیا کی آئی ڈیز بھی بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں، اس لیے میری صاحبِ اقتدار لوگوں سے گزارش ہے کہ پوری مسلم لیگ کو انٹی اسٹبلشمنٹ نہ سمجھنا جائے کیونکہ مسلم لیگ کے پرانے کارکن یا لیڈرز نے کبھی آمر کے علاوہ کسی دوسرے فرد سے نفرت کا اظہار نہیں کیا اور نہ ایسا کرنے والوں کی حمایت کی۔

میں مسلم لیگ کے کارکنوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اِس سوچ اور اِس چھاپ سے نکل کر اپنی پارٹی اور اپنے لیڈرز کو جہدوجہد کرنے دیں، کیونکہ وہ ایک قومی پارٹی کے لیڈرز ہیں تو چند علاقائی پارٹیز یا گروپس کی طرح برتاؤ کرنا مناسب رویہ نہیں ہوگا۔

بڑا شور سننے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اِک قطرہ خون نہ نکلا

چند ماہ قبل تک کئی ابھرتے نوجوان لسانی لیڈرز گلی کوچوں میں انٹی اسٹبلشمنٹ نعرے لگاتے تھے مگر ایک ماہ کی جیل نے انسان بنا دیا۔ بڑے بڑے جلسوں میں نعرے لگانے والے مذہبی رہنما بھی ایک دو ماہ کی گرفتاری کے بعد مومن بن گئے نواز شریف نے تو پھر بھی اُن سب سے بڑھ کر قربانی دی ہے۔ عوام ججوں، بلاگرز اور میڈیا کو زبان دی ہے۔

بعض مرتبہ شکار کو مچان پر بیٹھا شکاری جنگل میں شور مچاتے، شکار سے توجہ ہٹاتے اور شکار کو دور بھگاتے بندروں پر بھی فائر کر دیتا ہے تا کہ پہلے اُس سے جان چھڑائی جائے پھر اپنی توجہ اگلے شکار پر یکسوئی کے ساتھ مرکوز رکھی جا سکے۔

نواز شریف کا دشمن ایک جھوٹا مکار بے حس اور دوغلا انسان ہے۔ جو نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے مابین دوری کا فائدہ اٹھا کر اِس مقام تک آ پہنچا ورنہ اِس سے قبل وہ اِسی نواز شریف کے دیے صدقے و خیرات پر پل رہا تھا اور اِس کی منت ترلہ کر کے بامشکل قومی کی ایک سیٹ جیت پاتا تھا۔ اب وہ اپنی بچپن کی محرومیوں کا انتقام نواز شریف اور اُس کے خاندان سے لے رہا تھا۔ کسی پاگل جنونی اور بغض کے مارے انسان کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ نسبتاً کم خطرناک دشمن سے ہاتھ ملا کر بڑے خطرے کو شکست دی جائے۔

باقی رہی بات ووٹ کو عزت دینے کی تو اِس سے زیادہ ووٹ کی عزت کیا ہو گی کہ وہ بڑے لوگ جو اب تک خود کو فرعون سمجھتے تھے اب میرے اور آپ کے ووٹوں سے آئے لوگوں کے سامنے اپنا کیس رکھ رہے ہیں۔

دشمن کو ووٹ کی طاقت شکست دینے کا کہنے والے آج اسی دشمن سے ووٹ مانگ کر طاقت پانا چاہ رہے ہیں اور ان کی رضا اور حمایت پانے کو ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ کیا نواز شریف کے بیانیے نے عدالت اور آپ کو یہ طاقت نہیں دی کہ اِس مسلے پر اپنا موقف سرعام دیں اور کھل کر اِس کی حمایت یا مخالفت کریں۔ کیا یہ ووٹ کی عزت نہیں کہ کل تک تمام سیاستدانوں کو چور ڈاکو واجب قتل اور کرپٹ قرار دینے والے آج اُن ہی سیاست دانوں پر انحصار کر رہے ہیں۔

ہزاروں فیک آئی ڈیز، میڈیا پر بکاؤ انیکروں اور تجزیہ کاروں کے منہ سے ووٹ دینے کو بے وقوفی اور جمہوریت کو ناکام کہنے اور کہلوانے والے اب میڈیا میں اسی اسمبلی کی قراد داد کو عزت دینے جا رہے ہیں؟

کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ اب آپ کے ووٹ کو عزت ملی ہے کیونکہ آپ کے حلقے کا نمائندہ اِس ملک کی ترقی حفاظت اور سیکورٹی کا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ کیا آپ کے ووٹ کی اِس سے قبل کبھی اسی اہمیت یا عزت تھی؟

بھٹو پھانسی چڑھ گیا، ڈاکٹر قدیر دنیا بھر میں رسوا ہوا، چند لوگ آمروں کے اِن اقدامات پر جل مرے، کچھ نے جیلیں کاٹیں مگر حاصل کیا ہوا؟

سہانے سپنے نہ دیکھیے کہ نواز شریف اپنا خاندان، مخلص سیاستدان اور اپنے دوستوں کو اس آگ میں جھونک دے گا تو میں اور آپ یا ہماری آنے والی نسلیں اس کے نغمیں گائیں گے۔ اس کی خاطر اپنی زندگیاں تو دور کی بات ہم اپنی ایک دن کی دیہاڑی بھی نہ چھوڑ پائیں گے۔ قربانی کا کہنا بہت آسان مگر خود قربانی دنیا بہت مشکل امر ہے۔ اس لیے حقیقت پسندی کی طرف آئیں اور اُس پاگل ذہنی مریض سے خود کو، اپنے خاندان کو اور دوستوں کو بچائیں جو پیچ چورائے اینٹ تھامے ہر آتے جاتے پر وار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس جنونی سے ملک کی جان چھڑائیں جس کے ہر اقدام سے ملک دنیا پھر میں تنہا اور عوام غربت کی چکی کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔

میں گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر جذباتی کارکنوں کی طرف سے ہوتی نفرت کا اظہار اور لیڈر کے فیصلے کے خلاف ہوتی بحث و تکرار دیکھتے ہوئے یہ سب لکھنے پر مجبور ہوا ہوں میری ناقص عقل کے مطابق کسی کو نیچا دکھانے کو اپنی توانائیاں صرف کرنے سے بہتر ہے کہ سب مل جل کر ملکی ترقی کے لیے کام کریں۔ ملک کو آگے لے کر جائیں اور پہلے سے جاری اپنے ترقیاتی پروگرامز مکمل کریں۔ اس لیے دانشمندی یہی ہے کہ اب انگلی تک پھیلے ناسور سے جان چھڑانے کو انگلی کٹوا لی جائے ورنہ ناسور پورے جسم کو کینسر زدہ کر دیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments