بی این پی مینگل کی سیاست پر اعتراضات


بی این پی مینگل کو اخلاقی طور سپورٹ کیا ہے اس لئے میرا حق بنتا ہے کہ میں بی این پی مینگل سے چند سوالات بھی کروں۔

سردار اختر مینگل نے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ اتحاد کے لئے چھ نکاتی معاہدہ تسلیم کروانے کی شرط رکھی اور ان چھ نکاتی معاہدہ کو بلوچستان کے عوام کے ساتھ جوڑ دیا۔ ان چھ مطالبات میں پہلے اور آخری پر آج کچھ سوالات کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلی بات جو بی این پی مینگل کے فدایان خود کو تسلی دینے کے لئے اکثر کرتے رہتے ہیں اس کا جواب اشد ضروری ہے۔ بی این پی کے فدایان کے سامنے جب بھی چھ نکاتی معاہدہ کی بات کی جائے تو وہ فٹ سے بولتے ہیں کہ مینگل صاحب نے جو کچھ بھی کیا ہے صرف اور صرف بلوچستان کے عوام کے لئے کیا ہے۔ اپنی ذات، پارٹی یا سیاست کے لئے نہیں کیا۔ اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ تمام پارٹیاں یہی کہتی ہیں کہ ہماری پارٹی کا منشور عوام کی خدمت، عوام کے جان و مال کا تحفظ اور بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ لہذا سیاست میں ایسے نعرے نئی بات نہیں ہیں۔

دوسری بات جیسے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو مذہبی کارڈ کا استعمال کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے (جو میری ذاتی رائے میں مذہب کے نام پر سیاست کرنا غلط نہیں ہے ) وہ کس طرح انسانی جانوں یا قومیت کے نام پر سیاست کرنے کو جواز فراہم کرتے ہیں؟ اگر مذہب کے نام پر سیاست عیب ہے تو پھر قومیت اور انسانی جانوں پر سیاست اس سے بھی بڑا عیب ہے۔

اب بی این پی مینگل کی سیاست کی طرف آتے ہیں۔

الیکشن کے دوران بی این پی مینگل نے اپنی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ ”لاپتہ افراد کی بازیابی“ اور ”افغان مہاجرین کی وطن واپسی“ تھی۔ مطلب بی این پی نے سارا ووٹ لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرکے اور افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے پر قومیت اور صوبائیت کارڈ کا استعمال کرکے لیا ہے۔ جو اخلاقی طور درست نہیں تھا نہ ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس اعتراض کا جواب اگر بی این پی مینگل کی ترجمانی کرنے والوں کی زبان میں دیا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہوگا۔

الجواب بزبان بی این مینگل : دیکھیں بھائی لاپتہ افراد کی بات کرنا اور افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا مطالبہ کرنا سیاست ہرگز بھی نہیں، اور اگر سیاست ہے بھی تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟

بی این پی والوں کا یہ جواب انتہائی پرفیکٹ ہے اور قابل فہم بھی ہے کہ اگر سیاست کرنی ہی ہے تو کسی اہم ایشو پر کیوں نہ کی جائے۔ بی این پی نے کم از کم لاپتہ افراد کے لئے آواز تو اٹھائی ہے کیا یہ کم ہے؟ اس جواب کو دیکھ کر تقریبا لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں اور ہونے بھی چاہیے۔ مگر مسئلہ سیاست کا نہیں ان بنیادی اصولوں کا ہے کہ جسے سیاسی پارٹیاں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے استعمال کرتی رہتی ہیں اور بعد میں عوام کو لالی پاپ دیتی رہتی ہیں۔

اب آئیے ذرا ان چھ نکاتی معاہدہ کے صرف دو اہم مطالبات پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لاپتہ افراد کی بازیابی اور آخری مطالبہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی تھا۔

لاپتہ افراد کی بازیابی اس کا پہلا مطالبہ تھا مگر یہ حقیقت آپ قارئین مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ ابھی تک لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔ بازیاب کتنے ہوئے اور کتنے نہیں یہ تو ایک الگ بحث ہے۔ مگر جو مزید لاپتہ ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں بی این پی اسے بھی نہ روک سکی۔ چھٹا اور آخری مطالبہ افغان مہاجرین کی واپسی تھا۔ اس پر کتنا عمل ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عمران خان نے تمام مہاجرین کو شہریت دینے کا اعلان کردیا ہے۔ جس میں افغان مہاجرین جنہیں واپس بھیجنا تھا وہ بھی پاکستانی شہری قرار دیے جاچکے ہیں۔ اور یہ صرف فرضی باتیں نہیں بلکہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ باقی چار مطالبات کو گولی ماریں ان دو مطالبات پر ہی بات کی جائے تو بی این پی عوام کی مجرم بن جاتی ہے۔

معاہدہ کی اہمیت کیا ہے؟

معاہدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس معاہدہ کی آخری تاریخ کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ معاہدہ پورے پانچ سال کے لئے ہو یا پھر پی ٹی آئی حکومت کے آخری سال میں یہ بہانہ بناتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا جائے کہ حکومت نے ہمارے معاہدے پر عمل نہیں کیا لہذا ہم حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔ اور پھر نئے سرے سے انہی مطالبات کو بنیاد بنا کر اگلے عام انتخابات کے لئے مہم شروع کردی جائے۔

اب جو سادہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اختر مینگل صاحب نے حکومت سے اتحاد صرف اور صرف بلوچستان کے لوگوں کے لئے کیا ہے جس کا انہیں ذاتی طور کوئی فائدہ نہیں ہے ان دوستوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے کیا یہ کم فائدہ ہے کہ وہ حکومت میں بھی رہے اور اپنی اپوزیشن بھی کرتی رہے تاکہ پارٹی کو زندہ رکھا جائے۔ کسی بھی پارٹی کی زندگی کے لئے اس کی سیاست کا زندہ رہنا اشد ضروری ہے۔ بی این پی مینگل حکومت کی اتحادی بھی ہے اور اپنی سیاست کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے کیا یہ کم فائدہ ہے؟

اگر تقریریں ہی کرنا تھیں تو وہ اپوزیشن میں رہ کر بہت اچھے طریقے سے کی جاتی تھیں۔ اور اگر محض تقریروں سے کچھ ہوتا تو عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی بہترین تقریر سے کشمیر اب تک فتح ہوچکا ہوتا۔ بی این پی مینگل کو خدمت کی سیاست کرنی چاہیے یا پھر حکومت اتحادی بننے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ ہوکر بلوچستان کے اہم ایشوز کو قومی اسمبلی کے فورم پر پیش کرنا چاہیے۔ حکومت کا اتحادی بن کر معاہدہ بھی عمل بھی نہیں ہورہا اور تقریریں بھی کی جارہی ہیں۔ دو کشتیوں کا مسافر بن کر عوام کو لالی پاپ تو دیا جاسکتا ہے حقیقی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments