آئندہ چھ مہینے اہم ہیں


اکرم خان درانی صاحب میرے سامنے تشریف فرما تھے۔ یہ ان کے دفتر کے اندر ایک چھوٹی سی بیٹھک تھی۔ وہ چند لمحے پہلے اسمبلی اجلاس سے آئے تھے بلکہ دفتر ہی میں ایک بڑے جرگے کو بھی فارغ کرچکے تھے۔ پھر اس کے بعد میں تھا وہ تھے اورہم دونوں کے درمیان سکوت کے حائل پردے تھے اور وجہ جس کی یہ تھی کہ میں پہلی باربغور ان کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

سفید داڑھی پر جھریوں کے نشانات نکلنا شروع ہوچکے تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھے مسکرا کر بات کچھ اس انداز سے کررہے تھے جیسے بہت ہی خوش ہو لیکن مسکراہٹ جب پھیکی پڑ جاتی تو اندر کے بے شمار درد خود بہ خود پیشانی پر پھیل جاتے۔ پہلی ہی بات جو مجھے بہت متاثرکرگئی وہ پاکستان کے متعلق تھی۔ وہ کہہ رہے تھے میں صوبے کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہوں، اللہ نے عزت بھی بے تحاشا دی ہے، اپوزیشن لیڈر بھی ہوں اس کے بعد اگرمیرے ہاتھ پاؤں سونے چاندی سے بھی بھر دیے جائیں تو مجھے وہ سکون میسر نہیں ہوسکتا جو مجھے پاکستان کا شہری ہونے پر میسر ہے۔ میں چاہے کچھ بھی حاصل کرلوں لیکن میری شناخت پاکستان ہے اور یہی میرا فخر ہے۔

آپ کو پتا ہونا چاہیے یہاں مجھ پر چار خود کش حملے ہوچکے ہیں اورپاکستان سے میری محبت کو بھی مشکوک بنادیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو اور ہمیں ایک روشن مستقبل ملے جہاں ہم سب خوش اور مطمئین زندگی بسر کرسکیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر واضح طور پر جذباتیت عُود کر آچکی تھی اور ان کی آواز بھی لڑکھڑاچکی تھی۔

سیاستدانوں پر سوال ہزاروں اٹھتے ہیں لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے سیاستدان اجتماعیت کو مطمئین نہیں کرپاتے اورایسے میں جب در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ووٹروں کا ایک ہجوم ان کو اقتدار تک پہنچادیتا ہے تو پھر یا تووہ بے حد مصروف ہوجاتے ہیں اوریاسب کچھ بھول جاتے ہیں۔ میں بھی ایک سیاستدان کے سامنے بیٹھا تھا اور سوال ہی پر اکتفا کررہا تھا۔

جو پہلا سوال ذہن کے اندر کروٹیں لے رہا تھا وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ان کے شدید اختلاف کا تھا جس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔ تین بنیادی وجوہات ہیں پہلی وجہ الیکشن سے پہلے ان لوگوں نے دو کام بہت تسلسل سے کیے۔ ایک ان لوگوں نے پاکستان کے تمام سیاستدانوں کے بارے میں جھوٹ اتنا بولا کہ سچ کا گمان ہونے لگا اور عام لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ان کے علاوہ سب چور لٹیرے ہیں اور پاکستان کو اگر کوئی بچاسکتا ہے تو یہی ہیں۔ دوسرا ان لوگوں نے ملکی مفاد کا خیال کہیں بھی نہیں کیا جہاں بھی گئے صرف اپنے کمزور دعووں پر اڑے رہے۔ اس وقت تو کسی کو خیال نہ رہا لیکن آج سب کو احساس اور اندازہ ہورہا ہے کہ جہاں ذہن اور دل یکسوئی پر آمادہ نہ ہو وہاں جذبات سے کام نہیں لینا چاہیے۔

دوسری وجہ انہوں نے معاشی طور پر ملک کو انتہائی کمزور کیا اور پوری قوم کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ ایف بی آر، سٹیٹ بنک اور قومی خزانے کے لئے باہر سے ان لوگوں کو لایا گیا جو آئی ایم ایف کے ساتھ مستقل طور پر کام کرچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک معاشی طور پر مضبوط بن جاتا لیکن دن بہ دن معیشت کمزور بنتی جارہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا عام آدمی رزق کے لئے اور بھی در بہ در ہوجائے گا۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ سالانہ تقریباً گیارہ لاکھ لوگ جاب مارکیٹ میں آجاتے ہیں اور یہ لگے ہیں روزگار چھیننے میں۔

تیسری وجہ اسلام، کشمیر اوراسلامی دنیا کے اتحاد کے حوالے سے ان کا موقف ہمیشہ سے انتہائی کمزور رہا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں تو عمران خان صاحب کا بیان ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔

آپ جب حکومت میں تھے تو کیا یہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا۔ وہ بولنے لگے۔ دودھ کی نہریں تو نہیں تھیں لیکن عام آدمی سے رزق کے نوالے چھینے نہ کبھی ان کو تذبذب میں مبتلا کیا۔ ہم نے صوبے کو خاص طور پر اپنی ترجیحات میں رکھا۔ وفاقی حکومت اور واپڈا کے ساتھ جرگہ کیا، ملاکنڈ تھری پاؤر ہاؤس بنایا جس سے تین ارب روپے صوبائی خزانے میں جمع ہورہے ہیں۔ سینتیس بلین آئل اینڈ گیس کی طرف سے کوہاٹ، کرک اور ہنگو کے لئے حاصل کیے۔

آبی ذئے ایریگیشن سکیم شروع کیا جو پچیس ہزار کنال زمین کواب بھی سیراب کر رہا ہے۔ صوبے کے حقوق کے لئے مرکز سے مسلسل رابطے میں رہے۔ یہاں آج صوبے میں ان کی حکومت ہے اور مرکز میں یہ صوبے کے حقیقی حقوق کے لئے رابطہ بھی نہیں کرتے اگرچہ وہاں بھی ان ہی کی حکومت ہے۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومت اوراس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں کوئی بڑا کام کیا ہی نہیں۔

اس حکومت نے بی آر ٹی پر کام شروع کیا لیکن ہم نے ایسا کوئی پراجیکٹ شروع کیا نہ بے ترتیب قرضے لئے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کی کوئی حقیقی گارنٹی بھی نہیں اور بی آر ٹی لون اس صوبے کے لئے تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

آپ لوگ اسلام کی بات بہت کرتے ہیں لیکن عام لوگوں کا تاثر یہی ہے کہ اسلامی سیاست کا دعوٰی کرنے والے سیاستدان بھی مفادات کی خاطر اجتماعی فائدوں کوداؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے۔ یہ پروپیگنڈہ اصل میں وہی لوگ کر رہے ہیں جو ہماری قوت سے خائف ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں یہ صرف ایک فتنہ ہے جس کو پھیلایا جارہا ہے اور فتنے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ یہ پھیلتا بہت تیزی سے ہے۔

آخر میں جب مستقبل کے حوالے سے پوچھا تو کہنے لگے آئندہ چھ مہینے انتہائی اہم ہیں۔ ملک میں سیاسی اور جمہوری تبدیلی بعید ازقیاس نہیں۔

حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور حقیقی تبدیلی آجائے گی اکرم خان درانی صاحب نے جب آخری سوال کا جواب دیا تو میری سماعتوں میں سیاسی مقررین کی بے لگام صدائیں گونجنے لگی جس میں یہی آخری فقرہ بار باردہرایا جاتا ہے کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے حقیقی تبدیلی آجائے گی۔

میں دل ہی دل ہی میں ہنسا خود کو کوسا اور غلط فہمیوں سے خود کو نکالنے کا مصمم ارادہ کیے ان سے ہاتھ ملایا اور پاکستان زندہ باد کا ودر کرتے نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments