بیگانی شادی میں عبدﷲ دیوانہ


آج کل ہر طرف 17 اگست کو خصوصی احتساب عدالت کی طرف سے سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کو دی گی سزا کی گونج سنای دے رہی ہے۔ اس سزاکے قانونی، سیاسی، معاشرتی و مذ ہبی محرکات اور اثرات کا جا ئزہ لیا جا رہا ہے اس تاریخی فیصلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے ردعمل نے معاشرے میں پای جانے والی فکری اور نظریاتی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایک طرف تو وہ حضرات ہیں جو اس سزا کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آچکے ہیں اور اسے قومی، مذہبی اور اخلاتی لحاظ سے غلط قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ دانشور حضرات ہیں جو سول بالا دستی کے حامی ہیں اور اس سزا کو اس ملک کی تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں اوریہ جا نتے ہوئے بھی کہ اس سزا پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے پھر بھی اسے تازہ ہوا کا جھونکاقرار دے رہے ہیں مگر ہماری ناقص رائے میں دونوں ہی حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔

جو لوگ اس فیصلے سے کسی مستقل بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں ا ن سے معذرت کے ساتھ

دل کے خوش رکھنے کو غا لب یہ خیال اچھا ہے

یہ دراصل اشرا فیہ کی لڑائی ہے جس میں ریاست کے دو طاقتور طبقے پہلی دفعہ اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آتے د کھا ئی دے رہے ہیں مگر اس فیصلے سے عام آدمی کے لیے کسی قسم کی خیر کی توقع رکھنا فضول ہے دراصل بحیشیت قوم ہم بہت بھولے ہیں اور ہمار ا حافظہ انتہائی کمزور ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس قوم نے عدلیہ بحالی تحریک سے بے پناہ توقعات لگا لیں اس کے بعد ہوا کیا؟ اس تحریک نے و کلاء کو اپنی طاقت کا احساس دلا دیا اور اس کے بعد ان کی طرف سے مختلف مواقعے پر جو رد عمل دیا وہ آپ کے سامنے ہے ہمیں اس سلسلے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سے تحریک عروج پر تھی تو وکلا تحریک کے ایک نامور رہنما کے مطابق اس تحریک کی کامیابی کے بعد ملک میں سول بالا دستی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اورہم آج تک اس کے نتیجے میں ملک میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ کہنا تو بڑا اچھا لگتا ہے کہ ملک میں سول بالا دستی ہونی چاہیے اور ہر ادارے کو آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ ہماری ناقص رائے میں فساد کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ نے پہلا ٓئین بنانے میں نو سال لگا دیے اور اس کو معطل کرنے میں صرف دو سال کا عرصہ لگائے۔ جب آپ نے حاضر سروس آرمی چیف کووزیر دفاع  بنا دیا اور پھر جو کچھ ہوا آج ہم اسی کا پھل کھا رہے ہیں جس ملک کو اسلامی جمہوریہ ریاست بننا تھا اس کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا اور معاشرے کے دیگر طاقتور طبقات نے نا صرف اس کو قبول کر لیا بلکہ اس کے اقتدار کو دوام بحشنے میں اپنا حصہ بھی ڈالا اور آج جب اس ملک کو ساٹھ سال ہو چکے ہیں تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ طبقہ اپنی طاقت سے دستبرار ہو جائے۔ ایسی خواہش دیوانے کا خواب تو ہو سکتی ہے مگر یہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ آپ لوگ اپنے انفرادی معاملات کو ہی دیکھ لیجیے۔

ہمار ے گھروں اور اداروں میں جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کبھی بھی اسے آسانی سے نہیں چھوڑتا کیونکہ اسے اس اختیار اور طاقت کا نشہ لگ گیا ہوتا ہے۔ تبدیلی لیے معروضی حالات کا ہوناضروری ہے جو کہ ہمارے خیا ل میں اس وقت میسر نہیں ہے اس ملک میں ہر آنے والے حکمران نے اپنا چورن بیچا۔ کبھی روٹی کپڑا ور مکان کی صورت میں، کبھی اسلامائیزیشن کے نعرے میں، کہیں سب سے پہلے پاکستان ”کبھی تبدیلی یا پھر ووٹ کو عزت دو کا راگ الاپا گیا اور ہمارے عوام بھولوں کی طرح ان کے پیچھے لگ گئے۔ ہوا کیا کہ خواب د کھانے والوں کی نسلوں کی تقدیریں تو سنور گئیں لیکن اس ملک کے عام عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا اور اس کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔

ماناکہ کسی وزیرآعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ماناکہ زیادہ عرصہ فوج اقتدار میں رہی لیکن سوال یہ ہے کہ اس عرصہ میں چاہے کتنا ہی تھوڑا حصہ سیاستدانوں نے عام آدمی کی حالت سنوارنے کے لئے کیا کیا۔ سیاستدانوں کو امن امان ”تعلیم اور صحت کو بہتر بنانے سے کس نے روکا تھا پٹواری کلچر کا خاتمہ کرنے میں کون سی اسٹیبلیشمنٹ حائل تھی۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے یا حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے خیال میں حالات کی بہتری کی کاوش کی جانی چاہیے لیکن ان مطالبات کی صورت میں جو قابل حصول ہوں۔ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی اور اپنے آپ کو ایک لمبی جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کریں اور کیا ایسا کرنا ہماری تر جیحات میں شامل ہے؟

کالم کی دم: بلا تبصرہ: جب یہ کالم تکمیلی مراحل میں تھا تو خبر آئی کہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع میں ہونے والی قانون سازی میں حکومت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments