“اسٹیبلشمنٹ کی فتح یابی اور لندن بیٹھک کی ”تُو تُو مَیں مَیں


لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان 2 جنوری کو 2 گھنٹے طویل بیٹھک میں آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لئے قانوُن سازی میں مُسلم لیگ (ن) کے مُجوزہ کردار کو لے کر شدید بحث مُباحثہ عمل میں آیا۔ باخبر ذرائع کے مُطابق نواز شریف کا مؤقف تھا کہ پہلے مُقتدر حلقوں سے ”زیر التوا“ یعنی باقی ماندہ سہُولتوں کی گارنٹی حاصل کی جائے اور پھر مُجوزہ ترمیمی قانُون کی حمایت کا اعلان کیا جائے جبکہ شہباز شریف اس مؤقف پراصرار کرتے رہے کہ ترمیمی بل کی فوری اور غیر مشرُوط حمایت کا اعلان کرکے راولپنڈی کو خیر سگالی کا پیغام بھیجا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس بات پر بضد تھے کہ ابھی مریم نواز کو بھی پاکستان سے نکالنے کا مرحلہ درپیش ہے، فیملی کے مُنجمد اثاثوں کو بحال کروانا ہے، بچوں کے خلاف قائم مُقدمے بھی ختم کروانے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ سے ”بارگین“ کا یہی سُنہری موقع ہاتھ آیا ہے، لہذا پہلے ان تمام ”زیادتیوں“ کو ختم کروانے میں مُقتدر حلقوں کی مدد کو یقینی بنا لیا جائے، پھر جنرل باجوہ کو عُہدے پر مزید 3 سال برقرار رکھنے کے حق میں اپنا وزن ڈالا جائے۔ دُوسری طرف شہباز شریف اس مؤقف پر ڈٹے ہُوئے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب تک ہمارے لئے جو ”سی بی ایمز“ لیے ہیں اُنہیں acknowledge کرتے ہُوئے ہمیں بلا تاخیر آرمی چیف ترمیمی ایکٹ کی مُکمل حمایت کا اعلان کر دینا چاہیے۔

بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف اور شہبازشریف میں اس بابت سخت اختلاف رائے موجُود رہا اور دونوں بھائیوں یعنی پارٹی قائد اور صدر میں بحث اس قدر طُول پکڑتی گئی کہ یہ ہنگامی اجلاس لگ بھگ 2 گھنٹے جاری رہا۔

شہباز شریف یہی کہتے رہے کہ مُقتدر حلقوں نے موجُودہ حالات میں اب تک ہمیں غیرمعمُولی طور پر help out کیا ہے اور اب ہماری pay back کرنے کی باری ہے، لہذا ہمیں اب کوئی ضد یا حیل و حُجت کرکے ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہیے کہ ”اُن“ کے دل میں ہمارے لئے پھر کوئی بدگُمانی جنم لے۔ شہبازشریف کا مؤقف تھا کہ مُقتدر قُوتیں pending معاملات میں بھی ہمیں facilitate اور bail out کروانے میں کردار ادا کریں گی بشرطیکہ اس مرحلے پر ہم بھی خیر سگالی کا مُظاہرہ کرتے ہُوئے اپنے حصے کا جوابی کردار ادا کریں۔

ذرائع کے مُطابق اس ہنگامی بیٹھک میں طویل بحث مُباحثے کے بعد بھی کوئی حتمی اتفاق رائے سامنے نہیں آسکا مگر شہبازشریف نے بطور صدر پارٹی کو ”مُثبت“ کردار ادا کرنے کے لئے ”اؤ کے“ سگنل دے دیا کیُونکہ مُقتدر حلقوں کی خواہش پر پارلیمنٹ کو ہنگامی طور پر ”ان سیشن“ کر لیا گیا تھا، دُوسری طرف نواز شریف کو بھی اس طرح ”یُوٹرن“ لیتے ہُوئے اس قدر کمزوری اور غیر معمُولی ”تابعداری“ دکھانے پر شدید تحفظات تھے، چُنانچہ اُنہیں ہنگامی طور پر خواجہ آصف کو دُوسرا خط بھیجنا پڑا۔

اس کے علاوہ 1 روز قبل نواز شریف کیمپ سے تعلّق رکھنے والے سینیٹر مُشاہدُاللہ خان پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گُفتگُو کے ذریعے نواز شریف کا مؤقف سامنے لائے، اس لئے کہ شہباز شریف کے ”زیر قبضہ“ پارٹی قیادت کی اس یکسر قلابازی سے جہاں ایک طرف قیادت بالخصُوص نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کو سخت دھچکا لگا ہے وہیں کارکُنوں کی صفوں میں شدید اضطراب، بے چینی اور قیادت بارے سخت بدگُمانی پھیل رہی ہے۔

ادھر مُقتدر حلقوں نے جہاں ایک طرف اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ تعلّقات بحال کر لیے اور مُعاملات آگے بڑھانے کی غرض سے آپسی اعتماد بحال کرنے کی خاطر مُسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے ریلیف یقینی بنایا ہے تو دُوسری طرف سسٹم کو فوری لاحق خطرات ختم کرنے کی غرض سے اپوزیشن کا اتّحاد ختم، اُس کی ”رہبر کمیٹی“ کو عملا ”“ فارغ ”اور اس سب کی داغ بیل ڈالنے والے مولانا فضلُ الرحمن کو irrelevant بنا کے رکھ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پارلیمانی پارٹی کے قائد بلاول بھُٹو نے واضح طور پر کہہ دیا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اور مُسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے مذکُورہ ترمیمی بل کی غیر مشرُوط حمایت کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا جس سے ”مُتحدّہ اپوزیشن“ کی تازہ ترین صُورتحال بخُوبی آشکار ہو گئی ہے جبکہ بل پر اپوزیشن کے کسی مُشترکہ مؤقف یا لائحہ عمل کی غرض سے کسی ”رہبری“ کی ضرُورت ہی دفن کروا دی گئی۔ ۔ یُوں اسٹیبلشمنٹ نے خزب اختلاف کی دونوں بڑی پارٹیوں سے الگ الگ یعنی فردا ”فردا“ مُعاملہ کر کے اپوزیشن کے مُشترکہ پلیٹ فارم کا مورچہ بھی فتح کرلیا، اور مُلک کے سیاسی منظر نامے کو اپنے کنٹرول میں لینے کا ایک اور مرحلہ مُکمل کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments