کیا بڑوں کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے؟


ہمارے مشرقی معاشرے میں باپ کو جنت کا دروازہ کہا جاتا ہے اور ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے۔ اسی بنیادی مقدس اصول کے زیرِ تحت ہماری مشرقی نسل پروان چڑھتی ہے۔ اس مقدس اصول کی پاسداری کرتے ہوئے ایک مشرقی باپ اپنے اختیارات کا بھر پور استعمال کرتا ہے مثلاًجب بچہ تھوڑا سا بولنے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے عربی پڑھنے کے لیے مدرسے میں داخل کروادیا جاتا ہے اور باپ مولوی صاحب سے یہ جملہ کہتا ہے کہ ”گوشت تمہارا اور ہڈیاں ہماری“ تو بس پھر کیا مولوی صاحب اس جملے کی مکمل لاج رکھتے ہوئے بچے کا ابتدائی بچپن انتہائی سفاکی سے روند ڈالتے ہیں اور وہ بھی جملے بازی میں باپ سے پیچھے نہیں رہتا اور اپنے شاگرد سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ ”جہاں جہاں استاد کا ڈنڈا لگے گا وہاں وہاں جہنم کی آگ اپنا اثر نہیں دکھائے گی“ انتہائی معصومانہ بچپن جس دور میں بچہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا وہ بے اختیاری طور پر کسی جبری مسلط شدہ فیصلے کاشکار ہو کراپنے لا ابالی والے ایک خوبصورت بچپن سے محروم ہو جاتا ہے۔

یہ بچپن کی ابتدائی بنیاد اس فطرتاً آزاد بچے کے لیے ایک ایسا ناسور ثابت ہوتی ہے کہ وہ بالغ ہو کر بھی بالغ نہیں ہوتا اور ساری عمر دوسرے سہاروں کا محتاج بن کر ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔ اسی ذہنی معذوری کے زیرِ اثر وہ اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا عادی ہوجاتاہے اس کے بعد بات اسی پر ختم نہیں ہوتی اور مزید آگے بڑھتی ہے۔ بچہ جب بالغ ہو جاتا ہے تو وہ بالغ ہونے کی حیثیت سے اپنے فیصلے آزادانہ طور پر لینے کا مجاز نہیں ہوتا بلکہ اسے گھر سے لے کر باہر تک کرنے والے ہر کام کی تصدیق اپنے والدین سے کروانا ضروری ہوتی ہے مثلاً ”مذہب کون سا اختیار کرنا ہے اور کس مسلک کی پیروی کرنی ہے زندگی میں روحانی رہنمائی کے لیے خاندانی پیر کو پیشوا بنانا ہے یا اپنی مرضی سے خود کوئی اپنا روحانی گرو چننا ہے اور پھر اپنی ساری عمر کی نکیل اس روحانی گرو کو پکڑا کر خود کو آزاد کر لینے کے مترادف ہو جاتا ہے“ یہ مقدس تعلیمات ابتدائی گھٹی کے طور پر مشرقی والدین اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے کیرئیر تک کو چننے میں بھی آزاد نہیں ہوتا۔

مشرقی والدین اپنے بچوں کو بالغ ہی نہیں ہونے دیتے اور اگر کوئی بچہ غلطی سے انفرادی طور پر اپنا فیصلہ خود لینے کی جرأت کر بھی لے تو والدین اس فیصلے کو سپورٹ کرنے کی بجائے اس کو اخلاقی طور پر اتنا ڈی گریڈ کر دیتے ہیں کہ وہ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کے لیے ماں باپ کے فرمودات کو ایک طرف رکھ کر منطقی طور پر سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منطقی طور پر کسی بھی روپ میں چاہے وہ ”استاد، والدین، روحانی گرویا آج کل کی اصطلاح میں موٹیوَیشنل سپیکرز“ کیا ان سب کا ”کہا“ حرفِ آخر کا درجہ اختیار کر سکتا ہے؟

اگرہم کچھ لمحوں کے لیے اس کو درست بھی تسلیم کر لیں تو پھر تو ہماری زندگیاں غاروں میں بہت اچھی گزر رہی تھیں۔ غار سے نکل کر سپیس تک کا انسانی سفر اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی کیا یہ سب انسانی معجزے اور کمالات نہیں ہیں؟ زندگی ارتقائی سفر کا نام ہے اور ارتقاء کا عمل اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہر بچہ اپنی نیچرل سیلف کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ہر بچے کے اندر انفرادی سطح کی اعلٰی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اگر اس کو پڑوان چڑھنے کے لیے اعلٰی اور اچھا ماحول مل جائے تو اس کی انفرادی صلاحیتیں پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آناشروع ہو جاتی ہیں۔

جو بچہ اپنا بچپن اچھے سے جی لیتا ہے تو اس کی زندگی کے آگے آنے والے پڑاؤ آسان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مشرقی ماحول میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس معاشرے میں تو بچپن سے ہی بچے کے ذہن میں ابتدائی اخلاقیات کے طور پر کچھ مقدس مورتیاں قائم کر دی جاتی ہیں۔ مثلاً (بڑوں کا احترام) کریں، بزرگوں کے آگے اپنی آواز نیچی رکھیں، بڑوں سے زبان مت لڑائیں، بڑوں سے سوال مت کریں اور اپنے بزرگوں بڑوں کی ہر بات کو یقینی اور حتمی جان کر پلے سے باندھ لو۔

اس روایتی معاشرے میں ایک بالغ شخص کو اپنا جیون ساتھی چنتے وقت بھی ایک بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کی اس اہم ا سٹیج کی ذمہ داری بھی ہمارے بڑے ہی نبھاتے ہیں اور ان کا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ شادی باہمی رضا مندی سے دو دلوں کا ملن ہوتا ہے لیکن ہمارے سماج میں اس خوبصورت ملن کو روایات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجیے ایسے سماج کا جہاں پیار کی بھاشا بولنے اور اپنے رشتوں کو پیار کے رنگ میں رنگنے کے لیے بھی بڑوں کی رضامندی کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہم بھی عجیب معاشرے کے باسی ہیں جہاں پر ہر بات کو گناہ اور ثواب کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں رشتوں کو عجیب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ اور ہر لمحے کو کسی نہ کسی روایتی ٹیگ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ سماجی جڑت کی تمام نیچرل خوبصورتیوں کودقیانوسی کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں قید کر کے اخلاقیات کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ان فرمودات کے زیر بحث پروان چڑھنے والی نسل کوئی بہتر یا آزادانہ فیصلے کر پائے گی؟ میری نظر میں تو ناممکن ہے۔ ریڈی میڈیا بندھے بندھائے اصول واخلاقیات ایک انسان کی آزادانہ شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں۔

بقول ڈاکٹر خالد سہیل ؎

الجھے ہوئے ہیں کب سے گناہ و ثواب میں

گھولا ہے ہم نے زہر خود اپنے شباب میں

شہوت ہر ایک موڑ پہ رو کے ہے راستہ

رہتی ہے اپنی چاہ بھی کتنے عذاب میں

کتنی جوانیوں کا مقدر ہے تشنگی

کتنوں کی یاں پہ عمر کٹی ہے سیراب میں

قربت کا ایک پھول بھی اس میں نہ کھل سکا

جسموں کی ایسی فصل اگی ہے حجاب میں

محرومیوں نے اوڑھے گناہوں کے پیرہن

جھانکا ہے پارساؤں کے ہم نے جو خواب میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments