چوہدری صاحب تُسی سچے سوُ


پاکستان میں سیاست نہایت ہی پیچیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایسا کھیل ہے جو سیاست دان نہایت ہی چالاکی اور بعض اوقات نہایت ہی بزدلی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ سیاست کی دلچسب بات یہ ہے کہ اس میں نہ تو سدا دوست ایک سے رہتے ہیں اور نہ ہی دشمن۔ پاکستان کی تاریخ و یسے تو کئی بڑ ے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سیاست میں خوب نام، عزت، اور مال کمایا۔ لیکن کچھ ایسے زیر ک سیاست دان بھی ہیں جن کی نظر یں ہمیشہ سے ہی آنے والے وقت پر جمی ر ہتی ہے۔

جو سیاست اور سیاست دانوں کی اصلیت سے بہت اچھی طر ح واقف ہو تے ہیں۔ اُن کو معلوم ہو تا ہے کہ سیاست دان آخر کس بھاؤ بکتے ہیں۔ اور ایسے سیاست دان آنے والے خطرات کو اتنی اچھی طرح سو نگھ لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان سے آگاہ کر دیتے ہیں جو ان کی بات مان لے وہ بچ جاتا ہے اور جو نہ مانے وہ خوارہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک ایسے ہی سیاست کے بڑے ناموں میں سے ایک نام چو ہدری نثار علی خان کا بھی ہے۔

چو ہدری نثار علی خان کے سیاسی قد کاٹھ سے کون واقف نہیں مگر 2018 کے انتخابات میں اپنی جیپ کے پنکچر ہو نے پر اُنھوں نے ایسا سوگ منایا کہ نہ ہی اپنی اکلوتی پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر آج تک حلف اُٹھا یا ہے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی سر گر می میں اپنا کر دار ادا کر رہے ہیں۔

ماشاءاللہ سے حیات ہیں مگر سیاست کی نگری سے دور ایک کُٹیا بنا کر وقت کے بدلنے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاست دان کبھی ”ویلے“ نہیں ر ہتے بس ہوا کے رخ بد لنے کی دعا کر تے رہتے ہیں۔ ایسے ہی چو ہدری نثار علی خان صاحب بس ہوا کے بد لنے کا انتظار فر ما رہے ہیں۔ خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ اپنے پرانے دوست عمران خان کی بیٹنگ اور اپوزیشن کی باولنگ ہو تی دیکھ رہے ہیں۔ چو ہدری نثارکی میاں برادران کے ساتھ ہو نے برسوں پُرانی دوستی صرف نظر یات کے ٹکراؤ کی و جہ سے ختم ہو گئی۔

کیو نکہ چو ہدری صاحب ہمیشہ سے ہی میاں نواز شریف کو ہوا کا ساتھ دینے کی بات کر تے تھے۔ وہ مزاحمتی سیاست کے سخت تر ین مخالف تھے اور وہ مسلم للیگ ن کے ووٹ کو عزت دینے کے نعرے کو بھی زیادہ پسند نہیں فر ماتے تھے۔ ۔ بلکہ اُن کا سادہ سا فارمولا تھا کہ عزت سے سر کو جھکا لیا جاے اس سے پہلے کہ ”سر“ کٹ جاے۔ مگر نواز شریف صاحب نے اُن کی باتوں کو زیادہ سیر یس نہیں لیا۔ اسلام آباد سے لاہور تک ڈھنکہ بجا کر تشریف لاے اور جہاں جہاں رُکے ووٹ کو عزت دو سے کم نواز شریف کو کیوں نکالا کہ نعرے بلند کر تے رہے۔

کیو نکہ میاں صاحب نے سوچ لیا تھا کہ اب یہ سر جھکے گا نہیں اور انہیں نہ بھی امید تھی کہ اُنکی حمایتی عوام ان کا سر کٹنے نہیں دے گی۔ جیسے جیسے میاں صاحب کی مزاحمتی سیاست بڑ ہتی گئی ویسے ویسے ہی اُنکے قافلے میں لوگ کم ہو نے لگے۔ کیو نکہ لوگ جان چکے تھے کہ اس آگ کے کھیل میں صرف نقصان اُن کا ہی ہو گا۔ نواز شریف کے بیانیے سے اُنکے اپنے گھر والے تک متفق نہیں تھے اس لئے تو بڑے اور چھوٹے میاں صاحب کے درمیان خلیج واضح نظر آئی تھی۔

پھر وقت تھوڑاآگے بڑھا اور نواز شریف صاحب کو جیل جا نا پڑا۔ اور وہ کہتے ہیں نہ کہ جسے زند گی نہ سکھاے اُس کو جیل سکھا دیتی ہے۔ تو جیل میں گزرے عرصے میں میاں صاحب نے یہ سیکھ لیا تھا کہ جو چو ہدری نثارعلی خان نے کہا تھا وہ واقعی ہی درست تھا۔ اس کے ساتھ ہی میاں صاحب کو اپنی سیاسی طاقت کا ادراک بھی ہو گیا تھا۔ حقیقت اتنی تلخ تھی کہ میاں صاحب اس دکھ کو سہہ نہ پاے اور اس حد تک بیمار ہوے کہ اُن کو ووٹ کو عزت دینے کا ہو ش ہی نہ ر ہا اور اپنی عزت بچا کر لندن روانہ ہو گئے۔

ووٹ کو عزت دو، اور مسلم لیگ ن کا مزاحمتی سیاست کا بیانیہ بے چارہ پاکستان میں ہی منہ تکتا رہ گیا۔ اب حال ہی میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے میں ترمیم کے لئے مسلم لیگ ن نے ہاں کر کہ اپنے بیانیے کی نفی کی بلکہ اپنے وہ کارکنان جو جارحانہ سیاست کے لئے اپنے قائدین کے ساتھ کھڑے تھے اُن کے بھی دل توڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے ورکرز، ووٹرز، اور کچھ بہت ہی پڑھے لکھے صحافی بھی اس فیصلے سے نالاں نظر آئے۔ لیکن حقیقت تو سب جانتے ہیں کہ یہ بے چارے مجبور ہیں اور مجبور انسان کے لئے دعائیں کی جاتیں ہیں نہ کہ شکوے۔ مگر اس سارے عمل میں چو ہدری نثار علی خان بہت خوش ہوے کیو نکہ اُنھوں نے تو پہلے ہی سب کہہ دیا تھا اور اب ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ”چو ہدری صاحب تُسی سچے سوُ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments