محبت کے اسباب


کسی بھی شخص سے محبت ہونے کے عمومی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں۔ 1 : حسن اخلاق، 2 : حسن وجمال اور 3 : احسان

1:اگر کوئی شخص *حسن اخلاق* کاپیکر ہو، بولتا ہوتو منہ سے موتی جھڑتے ہوں، بات کرے تومسکراہٹیں بکھیرتاہو، کردار ہوتو ہیرے کی طرح چمکدارہوتوایسا شخص ہماری محبتوں کا محوربن جاتا ہے۔ آئیے اس شخصیت کو تلاش کریں جن کے اخلاق سے بڑھ کرکسی کا اخلاق نہ ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور علیہ السلام کے اخلاق کریمہ کیاتھے؟ تو فرمایا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ جو قرآن ہے یہی تو مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں۔ اور قرآن ایسا ہے جس میں کسی قسم کا عیب نہیں تو اخلاق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہیں جن میں کسی قسم کا عیب نہیں، آپ عیلہ السلام کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات ہم پر آشکار ہوگی کہ آمنہ کے لال جیساکوئی حسن اخلاق کا پیکر پیدا ہی نہ ہوا۔

2:اور اگر تذکرہ *حسن* کا چھیڑا جائے تو جب بھی کسی آنکھ کو حسن نظر آتا ہے تو وہ اس کی دیوانی ہوجاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور علیہ السلام کا حسن ایسا تھا *کالقمر لیلةالبدر لم اری قبلہ ولابعدہ مثلہ* جیسے چوہودیں کا چاند ہو، میں نے آپ جیسا حسین نہ پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ ام معبد حضور علیہ السلام کا حسن بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں آپ دور سے بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں مگر جب قریب آتے اور زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔

3:اگر *احسان* کو دیکھا جائے تو دنیا کا قاعدہ ہے کہ جس کا کھاؤاس کے گیت گاؤ، محسن ہمیشہ سے پیارا لگتا ہے۔ حضور علیہ السلام کے *احسان* پر ایک حدیث پاک پیش کرتاہوں۔ قیامت والے دن حضرت آدم علیہ السلام عرشِ خدا کے پاس سبز حلہ پہن کر تخت پر تشریف فرماہوں گے ایک شخص کو فرشتے پکڑ کرجہنم لے جارہے ہوں گے، آپ دیکھ کر متحیرہوں گے کہ یہ شخص تو امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین بار یا احمد کے ساتھ ندادیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب تشریف لاکر معاملہ دریافت فرمائیں گے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتی کو جہنم جاتے دیکھیں گے تو اپنے کپڑوں کو پکڑ کراس کے پیچھے دوڑیں گے اورفرشتوں کورکنے کا حکم فرمائیں گے، فرشتے رک جائیں گے، حضور فرمائیں گے کہ اسے جہنم نہ لے جاؤ، عرض کیا جائے گا اللہ تعالی کا حکم ہے، اس وقت آپ علیہ السلام اپنی داڑھی مبارکہ پکڑ کر رب تعالی کی بارگاہ میں عرض کریں گے مولا کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھاکہ مجھے میرے کسی امتی کے بارے رسوا نہیں کرے گا، اس وقت حکم ہوگا اے فرشتو!

جیسے میرا محبوب فرماتا ہے ویسے ہی کرو، اس شخص کو آپ کے فرمان کے مطابق دوبارہ میزان پر لایاجائے گا، اب بھی نیکیاں کم اور گناہ زیادہ ہوں گے، حضور علیہ السلام اپنی مبارک جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر نیکیوں کے پلڑے میں رکھیں گے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، وہ شخص عرض کرے گا اے حسین و جمیل چہرے والے آپ کون ہیں اور یہ کاغذ کیا ہے تو آپ علیہ السلام فرمائیں گے : *انا نبیک محمد وھذا صلاتک التی کنت تصلیھا علی* میں تمہارا نبی محمد ہوں اور یہ وہ درود پاک ہے جو تودنیا میں مجھ پر پڑھا کرتاتھا، آج تجھے اس کی ضرورت تھی تو میں اس کو لے کر آگیا۔

اس سے بڑھ کراحسان اور کیاہوگا جب ماں باپ بیٹے سے، بیٹا ماں باپ سے بھاگ رہاہوگا اس وقت محسن کائنات، محسن انسیانیت تشریف لاکر احسان فرمائیں گے۔

تو جب آپ کا *اخلاق* سب سے بڑھ کر، آپ کا *حسن* سب سے بڑھ کر اور آپ کا *احسان* بھی سب سے بڑھ کر ہے تو پھر ہماری *محبت* کے اصلی اورحقیقی حقدار کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے پیارے *آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم* ہیں۔

اللہ رب العزت ہمیں اپنے حبیب علیہ السلام کی سچی محبت عطافرمائے۔ *آمین*

ضیا اللہ چشتی
Latest posts by ضیا اللہ چشتی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments