پاکستان کی معیشت کو سہارا


جب بھی ہم بازار سے گزرتے ہیں بڑے اور وسیع بازاروں میں تو دیکھتے ہیں کہ اتنے بڑے بازار میں اتنا زیادہ رش ہوتا ہے۔ پیدل چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سارا بازار ریڑھی والوں نے لیا ہوتا ہے۔ جبکہ چھابڑی اور ریڑھی والے پچھلی دکانوں کو رینٹ دیتے ہیں۔ مگر اس سے حکومت کو کیا فائدہ، جبکہ گاڑیوں والے سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں اپنی گاڑیوں کو ٹوکن لگواتے ہیں۔ تو پھر اس کا رینٹ دکاندار کیوں لیتے ہیں۔ اس وجہ سے رش بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور ٹریفک بھی جام ہو جاتی اور پھر فیول بھی زیادہ استعمال ہوتا ہے ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے جس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ پہلے ہی ملک میں درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔

ان سب مشکلات کو ختم کرنے کے لئے ٹھیک ٹھاک بجٹ چاہیے جبکہ پاکستان جیسے ملک کے پاس اتنے ذرائع نہیں کے وہ بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کو کنٹرول کر سکے۔ اس کے لئے نئے روڈ اور ٹریفک اہلکار بھرتی کرنا پڑیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ ستاون لاکھ موٹرسائیکل رجسٹرڈ ہیں۔ باقی ٹریفک جس سے حادثات اور قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

جبکہ حکومت کوسالانہ اپنے ملکی اخراجات پورے کرنے کے لئے 9.2 ٹریلین روپے جوکہ GDP کا% 2.7 بنتا ہے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ حکومت کے مطابق 2019 میں 37 ارب ڈالر سود کا قرضہ واپس کرنا تھا جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرخ بڑھ رہی ہے۔

لہذا! حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے کہ اپنے ملکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ریونیو میں اضافہ کر سکیں۔ اور زیادہ سے زیادہ قرضے سے بچا جا سکتا ہے۔ ہر شہر میں سرکار کے پاس خالی جگہ پڑی ہوتی ہے۔ وہاں ان ریڑھی اور چھابڑی والوں کو جو کہ روڈوں اور گلیوں میں رش بناتے ہیں ان کو شفٹ کیا جائے۔ اور ان کو دکانیں بنا کہ دی جائیں اور وہاں پانی، بجلی اور سیکیورٹی کا سسٹم موجود ہو اور ان سے ہر ماہ رینٹ لیں اس سے سرکار ہر سال اپنے ریونیو میں اربوں روپے کا اضافہ کر سکتی ہے۔ یہاں سرکار قیمتیں بھی اپنے کنٹرول میں رکھ سکتی ہے۔ ان قرضوں اور مسائل سے بھی بچ سکتی ہے جیسے نئے روڈ، مہنگائی، آلودگی اور قرضوں جیسے مسائل میں کافی حد تک کمی کر سکتی ہے اور قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔

اب مسلئہ یہ ہے کہ کیا لوگ وہاں سفر کریں گے؟ وہاں جا کر چیزیں خریدنے کے لئے تو ہاں! لوگ جاتے ہیں اپی پسند اور ضرورت کو دیکھتے ہیں جیسے Centaurs، S۔ Bسٹورز ہیں جو ہر جگہ نہیں پھر بھی لوگ دور دور سے ان سٹورز میں خریداری کے لئے جاتے ہیں۔ اب تو ویسے بھی ہر کسی کے پاس اپنی سواری ہوتی ہے انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جانے میں اور اب تو online کا سسٹم بھی بڑھ چکا ہے۔

لہذا!

اگر حکومت اس پر عمل کرے تو اربوں روپے کے قرضوں، مہنگائی نئے اہلکاروں کی بھرتی پر اخراجات اور کئی حادثوں کے جانی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ بلکہ ہر سال اربوں روپے قومی خزانے میں جمع بھی ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments