ریاست مدینہ کا سلطان


چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک بزرگ قیدی کی ہتھکڑی لگی تصویر نظر سے گزری جس نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ تفصیلات کے مطابق یہ تصویر کسی قاتل، کسی ڈاکو، کسی کرپٹ، کسی منی لانڈرنگ کرنے والے کی نہیں ہے بلکہ یہ تصویر سلطان نامی ایک عام ضعیف العمر پاکستانی کی ہے اور یہ تصویر ہسپتال میں لی گئی ہے۔ جی ہاں جناب والا یہ شخص سلطان برین ٹیومر کی خطرناک بیماری کا شکار ہے، سلطان نامی یہ قیدی اس کے جسم میں سکت نہیں ہے کہ یہ اپنی جگہ سے حرکت کرسکے مگر قانون کے رکھوالوں نے اسے ہسپتال کے بیڈ پر بھی آہنی ہتھکڑیوں سے باندھ کررکھا ہے، جو کہ قانون کے رکھوالوں کے لیے بھی باعث ذلت ہے۔

جناب والا یہ جانوروں سے بدتر سلوک اس شخص کے ساتھ ہورہا ہے جس نے جابر حکمران کے سامنے حق کی آواز کو بلند کیا تھا، احتجاج کرنے کا گناہ کیا تھا، یہ اسیر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا یہ تصویر دراصل اس نظام کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ غور سے اس کی بے بسی کو دیکھئے اور پھر یاد کیجئے جب اس ملک کے اشرافیہ کے لئے چھٹی والے دن عدالتیں لگ گئیں اور انہیں اس ملک سے فرار کروادیا گیا۔ یاد کیجئے کہ کیسے ایک شخص جو برسراقتدار رہا اسے اسی دور حکومت میں کرپشن کی سزا کے باوجود ملک سے فرار کروادیا گیا۔

بحثیت قومی فردکے میرا ان تمام عدالتوں سے سوال ہے کہ کیا یہ ہے آپ کا انصاف؟ میرا وزیراعظم پاکستان سے سوال ہے کہ کیا یہ ہے آپ کا نیا پاکستان؟ میرا چیف جسٹس سے سوال ہے کہ یہ ہے آپ کا عدالتی نظام؟ میرا اس ملک کی عوام سے سوال ہے کہ کیا یہ وہ تبدیلی تھی جس کے خواب ہم سب نے دیکھے تھے۔ اس ملک میں جہاں نامی گرامی کرپٹ لوگ محفوظ ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مظلوم لوگ قیدو بند کی ناجائز صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

مہنگائی کا اس قدر طوفان بدتمیزی اگر قوم برداشت کر رہی ہے تو صرف ان خوابون کی وجہ سے جو وزیر اعظم عوام کو دکھاتے آئے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کا دل کیا ووٹ لینے کی حد تک غریب عوام کے لیے مگر مچھ کے آنسو روتا تھا؟ وہ کون سا نظام ہے جس کے خلاف پچھلے بیس سالوں سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے؟ یہ بھیڑ چال کا نظام اس قدر منظم اور طاقت ور ہے کہ وقت کا وزیر اعظم بھی اس کی رو میں بہہ گئے۔ کیا آپ نے کبھی ریاست مدینہ کو سٹڈی کیا کہ وہ کیسی تھی؟

یا آپ کو بھی ریاست مدینہ کا لولی پاپ دیا گیا جو آپ نے عوام کو دے دیا؟ مجھے مولانا روم کی وہ حکایت جو انہوں نے لکھی بہت پسند آئی۔

آپ لکھتے ہیں ایک کرخت آواز مؤذن جس کی آواز بہت بری تھی گو کہ کوّا یا گدھا بول رہا ہو وہ اپنے تئیں سروں کا بادشاہ بنا ہوا تھا لوگ اس کی آواز تک سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ دیہات کے سمجھدار لوگوں نے اسے کچھ رقم دی کہ آپ حج کر آئیں اور وہ خوشی خوشی سفر پر روانہ ہوا۔ سفر کرتے کرتے کہیں نماز کے وقت اس نے اذان دی تو ایک مجوسی نے مٹھائی کی ٹوکری اسے پیش کی۔ موذن صاحب بڑے خوش ہوئے کہ ہماری آواز کے سحر میں یہ مجوسی بھی گرفتار ہوا۔

مجوسی سے دریافت کیا تو اس نے بتایا میری بیٹی جو کہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر تھی ہم کافی پریشان تھے آپ نے میری مشکل حل کر دی۔ ہوا یہ کہ جب آپ نے اذان دی تو آپ کی بھدی آواز سے بیزار ہو کر میری بیٹی نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔

جناب وزیر اعظم اگر غریب نے ہی پسنا تھا، اگر انصاف کی دھجیان ہی کرنی تھیں، اگرآپ کی ریاست مدینہ اور ریاست یہودیہ میں کوئی فرق نھیں تو آپ نے وزیر اعظم بننے کا خواب بھی پورا کر لیا، آپ کے پاس بہانے تراشنے کا جواز بھی نہ رہا، آپ صاحب اقتدار ہیں۔

آپ کے پاس اس نظام کو تبدیل کرنے کی زیادہ قوت ہے۔ اگر موجودہ ریاست مدینہ ہی ہمیں دینی ہے جس میں نا انصافی، اقرباء پروری، عدم عدل وانصاف، ٹیکسوں کی بھر مار، احتصالی نظام، غریب غریب تر امیر امیر تر، مہنگائی، بے روزگاری گو تمام خرافات موجود ہوں ہم پر احسان کیجئے ہمارا پرانا پاکستان ہی ہمیں واپس کر دیجئے۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments