امریکہ، ایران کشیدگی، ہمارا کردار کیا ہے؟


امریکہ اور ایران کے تعلقات آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران نے نہ صرف بدلہ لینے کا اعلان کیا بلکہ عراقی دارالحکومت بغداد کے گرین زون پر میزائل بھی داغ دیے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ لازم سی نظر آتی ہے، مگر جنگ کے لیے دو ملکوں کا کسی نہ کسی صورت برابر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ امریکہ اور ایران کا موازنہ کسی بھی طرح ممکن نہیں۔

اگر یہ جنگ ہوئی تو کچھ ویسی ہی ہو گی جیسی عراق امریکہ جنگ تھی۔ اسے آپ اپنے دل کی تسلی کے لیے جنگ کہہ سکتے ہیں، اصل میں وہ امریکہ کا عراق پر قبضہ تھا۔

افغانستان میں طالبان سے بھی کچھ ایسی ہی جنگ لڑی گئی۔ گو افغانستان میں بوجوہ امریکہ قریب قریب ویتنام والے انجام سے ہی دوچار ہوا لیکن یہ بھی جنگ نہیں تھی، امریکی در اندازی تھی۔

افغانستان اور ویت نام میں امریکہ کو عراق جیسی کامیابی نہ ملی۔ وجہ وہاں کا جغرافیہ تھا۔ عراق دجلہ و فرات کی وادی تھا، جبکہ ویتنام ایک دلدلی استوائی جنگل جہاں میدان پورے ملک کا 20 فیصد بھی نہیں تھے۔ اسی طرح افغانستان بھی نہایت دشوار گزار پہاڑی علاقہ تھا۔

ایران کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ درپیش ہے۔ ایران کے ماضی پہ نظر ڈالیں تو ہمیں غیر ملکی تسلط نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ایران کا جغرافیہ ہے۔ عراق اور ایران کے درمیان سلسلہ کوہ ہے۔ ان ہی پہاڑوں پر سارا ایران آباد ہے۔ سمندر سے ان پہاڑوں کے درمیان دو بڑے صحرا، دشت لوت اور دشت کویر، موجود ہیں۔

امریکہ ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی صورت میں مصیبت میں پھنس سکتا ہے۔ اسی طرح ایران نے ماضی میں امریکہ کی سرزمین پر جتنی بار بھی در اندازی کی، ناکام رہا۔ لے دے کر امریکہ کے اتحادی بچتے ہیں یا خلیج میں امریکی تنصیبات اور اڈے۔ ایران ان پر حملہ بھی کرے گا تو امریکہ کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچے گا۔ بس خطے کا امن برباد ہو گا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک پچھلے 80، 70 برسوں کی طرح استحکام کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہ جائیں گے۔

ایران امریکہ سے کچھ ایسا ہی بدلہ لے گا، مگر امریکہ ایران نامی خطرے کو اب مزید بڑھنے نہیں دے گا۔ خاص کر ایرانی پراکسیوں کی وجہ سے بھی ایران امریکہ کی ہٹ لسٹ پر ہے۔

ایران کو سبق سکھانے کی دوسری اور نسبتا آسان صورت ایرانی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ یہ اتنا مشکل کام نہیں جتنا ایران پر براہ راست حملہ کرنا۔ داخلی طور پر ایران کو غیر مستحکم کرنا چنداں مشکل نہیں۔

ماضی کے روس کی طرح، ایران بھی ایک نظریاتی انقلاب کے باعث اندرونی طور پر غیر مستحکم ہے۔ ہر انقلاب کے بعد معاشرے میں اس انقلاب کو رد کرنے کی سوچ بھی اسی شدت سے پروان چڑھتی ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر انقلاب کچھ عرصے کے بعد فاشزم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایران عالمی سطح پر جس تنہائی کا شکار ہے اس کا لازمی نتیجہ عوامی بے چینی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں ایران میں کئی واقعات ایسے نظر آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کی نئی نسل کچھ آزادی چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ ایران میں مذہبی گروہ بندیاں بھی بہت آسان ہیں، لسانی فساد، نسلی تفاخر، کسی بھی منفی جذبے کو ابھار کے ایران کو داخلی عدم استحکام سے دوچار کر کے نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔

حکومتوں کے تختے الٹنا، یوں بھی سپر پاورز کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ یعنی یہ بات تو قریبا طے ہے کہ امریکہ، ایران پر براہ راست حملہ نہیں کرے گا۔ سارا حساب چاروں کھونٹ درست بیٹھ رہا ہے لیکن اگر ایسا ہے تو پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سب فٹافٹ آمادہ کیوں ہو گئے؟ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب پاکستان کے کسی ہمسائے کی گوشمالی مقصود ہوتی ہے۔

بات یہاں آ کر ٹھہر جاتی ہے اور تجزیہ اُون کے گولے کی طرح الجھ جاتا ہے۔ اتنا تو معلوم ہے کہ اس فلم کا کچھ نہ کچھ انجام تو ہونا ہے اور جو بھی ہونا ہے اس میں پاکستان کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہو گا۔ امریکہ کو چاہیے کہ پاکستان کے تجزیہ نگاروں پر رحم کھائے اور کچھ کرے نہ کرے، چپکے سے ہمارے ہی کان میں بتا دے کے اس بار ہمارا کردار کیا ہو گا؟

کیا اس بار بھی فلم کے آخر میں ہیروئین سے دستبردار ہو کے آنسو پونچھتے ہوئے منظر سے نکل جانے والے لنگڑے پردیسی کا کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا ہو گا؟ اس بار بھی؟ کیا اس بار بھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp