گیدڑ راجہ کا پول کیسے کھلتا ہے؟


پرانے زمانے کی بات ہے کسی جنگل میں ایک گیدڑ رہا کرتا تھا۔ ایک دن کھانے کی تلاش میں کسی گاؤں پہنچا۔ وہاں کسی رنگ ریز کی دکان میں اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ رنگ سے بھری ایک ناند میں گر گیا۔ ناند میں نیلا رنگ گھلا ہوا تھا۔ گیدڑ بری طرح گھبرا گیا اور ناند سے نکل کر سیدھا جنگل میں آگیا۔ گیدڑ کے پورے جسم پر نیلا رنگ چڑھ گیا تھا جو سورج کی روشنی میں بڑا چمکدار اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ جنگل کے دوسرے گیدڑ اسے بالکل نہ پہچان سکے۔

انہوں نے اسے ایک نیا اور عجیب و غریب جانور سمجھا اور حیران ہو کر اس سے پوچھا! ”تم کون ہو؟ “۔ گیدڑ نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میرا نام ”چیا چھاؤ“ ہے اور مجھے آسمان سے اس جنگل میں تمام جانوروں کا راجہ بنا کر بھیجا گیا یے۔ اس کا رنگ بالکل انوکھا تھا اور ایسا رنگ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ وہ کس قسم کا جانور ہے سبھی جنگل کے باسیوں نے اسے اپنا راجہ مان لیا۔ اسے ایک ہاتھی پر بٹھا کر جلوس نکالا گیا۔

اس کے دونوں طرف محافظوں کے طور پر شیر چل رہے تھے۔ تمام جنگلی جانوروں کے ساتھ اس نے جنگل کا معائنہ کیا۔ راجہ کو ایک دن ماں کی یاد ستائی تو اس نے ایک گیدڑ کو اس وادی میں بھیجا جہاں اس کی ماں رہتی تھی۔ ماں تو نہ آئی لیکن قاصد گیدڑ کو پتا چل گیا کہ یہ راجہ اصل میں ایک گیدڑ ہی ہے۔ اس نے واپس آکر اپنی برادری کو بتایا کہ ایک گیدڑ ان کا راجہ بنا ہوا ہے۔ یہ سن کر تمام گیدڑ غصے سے آگ بگولہ ہو گئے۔ ایک بوڑھے گیدڑ نے رائے دی کی کہ ہم سب گیدڑوں کو ایک ساتھ مل کر چیخنا چاہیے۔

اگر وہ گیدڑ ہو گا تو ہماری آوازیں سن کر وہ بھی چیخنا اور آوازیں نکالنا شروع کر دے گا اور اس کی اصلیت کا پتا چل جائے گا۔ یہ ترکیب تمام گیدڑوں کو پسند آئی اور انہوں نے مل کر آوازیں نکالنی اور چیخنا شروع کر دیا۔ جنگل کا راجہ بنا گیدڑ اس وقت ایک ہاتھی کی پیٹھ کر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ جب اس نے گیدڑوں کی آوازیں سنیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور ان کی آوازوں میں آواز ملا کر خود چیخنے لگا۔ ہاتھی نے جونہی گیدڑ کی آواز سنی تو وہ جھلا کر بولا کہ کم بخت تیری ہمت کیسے ہوئی میری پیٹھ پر بیٹھنے کی۔

گیدڑ کو سونڈ میں جکڑ کر ایسا زمین پر پٹخا کہ راجہ گیدڑ دوبارہ اٹھ نہ سکا۔ یہ ایک چینی لوک کہانی ہے جس کا اس وقت تذکرہ اس لیے برمحل ہے کہ اس وقت وہ سارے راجے زمین پر اوندھے پڑے ہیں جو جمہوریت پسندی، نظریاتی سیاست اور آئین کی بالادستی کے سرخیل بنے پھرتے تھے۔ آرمی ایکٹ ترمیم کا بل کیا پیش ہوا تمام تر نظریاتی سیاست پر لگا کر جیسے آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئی ہو۔ میاں نواز شریف جو ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگا کر اپنے چاہنے والوں کے ہاں نظریاتی سیاست کے چیمپئن بن گئے تھے انہوں نے جھٹ سے اس ایکٹ میں منظوری کے لیے سر تسلیم خم کر دیا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیں لیکن ایسی بھی کیا بے تابی کہ سارے جمہوری اور پارلیمانی قرینے بائی پاس کر کے اپنا سر نیہوڑ دیں۔ مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی خاموشی کی دبیز چادر اوڑھ کر سو رہا ہے۔ میاں شہباز شریف تو ویسے بھی روز اول سے مفاہمتی پالیسی کے حق میں تھے اس لیے ان سے تو گلہ بنتا ہی نہیں۔ انہیں پاکستان میں اقتدار کے لیے مفاہمت اور سمجھوتوں کی سیاست سے بخوبی آگاہی ہے اس لیے وہ پہلے دن سے بھائی اور بھتیجی کو سمجھا رہا تھے کہ یہ پرخار راہ ہے جس پر آپ نہیں چل سکو گے اور وہی ہوا کہ آج جنگل کے گیدڑ راجہ کی طرح ہر ایک کی حقیقت کھل گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کو بھی شاید ان کے والد محترم نے سمجھا بجھا دیا ہے اس لیے تو وہ سارے نعرے ہوا ہوئے کہ عمران حکومت کے سیلیکٹرز سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ سویلین بالادستی کے سارے وعدے اور نعرے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ نوجوان بلاول کے پاس اس ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کے لیے کوئی جواز اور دلیل نہیں ہے۔ اس ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر تنقید نہیں کی جا رہی بلکہ جس عجلت سے یہ کام نمٹایا جا رہا ہے وہ دراصل ہدف تنقید ہے۔

تمام بڑی سیاسی جماعتیں جس قدر جلد بازی سے اس ترمیم کو منظور کرنے کے درپے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ تمام ہی طاقتور حلقوں کی خوشنودی کی طلب گار ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں جنگل کے گیدڑ کی مانند ہیں جو باہر سویلین بالادستی اور آئین کی سربلندی کے لیے نعرہ زن رہتی ہیں لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو ان کی حقیقت کھل جاتی ہے کہ جمہوریت نہیں اقتدار پرستی کے لیے وہ سارے ڈھونگ اور روپ اختیار کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں آرمی ایکٹ میں ترمیم پر غورو غوض کرتیں اور اسے طویل پارلیمانی بحث و تمحیص کے مراحل سے گزارتیں تاکہ کسی سقم کی کوئی گنجائش نہ رہ جائے۔

اس ایکٹ کی منظوری کے لیے کسی عجلت کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ عدالت عظمیٰ نے چھ ماہ کا وقت دے رکھا ہے۔ ابھی تو پانچ ماہ کا عرصہ باقی ہے لیکن سیاسی جماعتیں ہیں کہ ترمیم میں منظوری کے لیے بے تاب و بے قرار ہیں کہ جھٹ سے یہ ترمیم منظور ہو اور وہ طاقتور حلقوں کی خوشنودی کے حصول کے گوہر نایاب کو پانے میں کامیاب ہوں اور اپنے سیاسی مستقبل کے روشن ہونے کے بارے میں امیدیں پال سکیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے بے شک سمجھوتے اور مفاہمت کریں لیکن انقلابی اور نظریاتی ہونے کا ڈھونگ نہ رچائیں کیونکہ ان کا یہ ڈھونگ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ جنگل کے گیدڑ راجہ کی طرح انہیں اوندھے منہ ہی گرنا ہوتا ہے اس لیے وہ سیاست کے جنگل میں گیدڑ ہی رہیں تو بہتر ہے کم از کم ان پر منافقت کا الزام تو نہیں لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments