سیاست، جمہوریت اور انقلاب


آرمی ایکٹ میں ترمیم کے تناظر میں مسلم لیگ ن سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت پر ان کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس سے اس تاثر کو اجاگر کیا جارہا ہے کہ جمہوریت کمزور ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جارہی ہے کہ ا نہوں نے جمہوری طرز فکر کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کا ساتھ دے کر اصولی، نظریاتی اور قانونی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت، سیاست بدستور ایک بڑے ارتقائی عمل سے گزررہی ہے۔ اس ارتقائی عمل میں ہمیں اپنی سیاست اور جمہوریت سے کسی بڑے انقلاب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اسی طرح اس ملک میں کوئی بھی اصولی، نظریاتی یا قانونی کی پاسداری کی سیاست نہیں کررہا۔ جو سیاست یہاں بالادست ہے وہ طاقت ور طبقات کی سیاست ہے اور طاقت کے مراکز ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں۔

ایسی سیاست میں عام آدمی کی سیاست، قانون کی حکمرانی، جمہوری اداروں کی بالادستی، جمہوری طرز فکر یا نظریاتی بنیادوں پر سیاسی فیصلے کی باتیں سیاسی جلسے جلوس، سیاسی مجالس یا عوام کو متاثرکے لیے بطور ہتھیار استعمال کی جاتی ہیں۔ اس لیے پہلے تو ہمارے اہل دانش یا سیاست سے جڑے فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری سیاست میں کوئی پہلو تصوراتی یا آئیڈل شکل میں موجود نہیں۔ ہماری سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کافی تلخ ہے او راس کھیل سے ہماری سیاست آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب جارہی ہے۔ یہ جو ہمیں سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں یا ان کا قیادت کے خلاف ایک بڑ ا سیاسی ماتم دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یقینی طور پر ہونے والے عمل کو غصہ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، مگرآج کی

سیاست میں فیصلے طاقت کو مدنظر رکھ کر یا اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت میں انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے متبادل کے طور پر ہمیں اصلاحات کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اصلاحات کا عمل اسی صورت میں آگے بڑھتا ہے جب ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل مضبوط بھی ہو او رادارہ جاتی عمل بھی اپنی جگہ اپنی افادیت رکھتا ہو۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں عملی طور پر مضبوط سیاسی و جمہوری عمل کی بنیاد پر نہیں پرکھی جاسکتی او ران کا داخلی جمہوری نظام بھی کافی کمزور ہے۔ سیاست میں جب ہم یہ منطق دیتے ہیں کہ ملک میں سیاست کے مقابلے میں غیر جمہوری قوتیں عملا جمہوری قوتوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں تو یہ حقیقت پر مبنی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں جمہوری قوتیں بغیر کسی بڑے سیاسی ایجنڈے پر ملک میں سول بالادستی کی جنگ کو مضبوط بناسکیں گی؟ کیونکہ ہماری سیاست کا موجودہ چال چلن ایسا نہیں جو ظاہر کرسکے کہ ہم اس جنگ کو لڑنے میں واقعی سنجیدہ ہیں۔ عملی طور پر اس جنگ کو جیتنے کی خواہش کو رکھنا ایک بات جبکہ اس جنگ کو عملی طور پر سیاسی میدان میں لڑنا دوسری بات ہے۔ جب سیاست میں ہم محض اقتدار یا طاقت کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کرتے ہیں تو ا س میں سمجھوتوں کی سیاست کا بڑا دخل ہوتا ہے۔

یہ سمجھوتے کی سیاست عملا سیاسی طور پر سیاسی جماعتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ خود کو طاقت کے مراکز تک محدود رکھیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں طاقت کے حصول کا مرکز عوام نہیں بلکہ طاقت کے مراکز ہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سیاست میں حزب اقتدار او رحزب اختلاف دونوں ہی طاقت کے مراکز کے گرد ہی اپنا دائرہ کار بنا کر اپنی جدوجہد کرتے ہیں۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اس ملک میں اسٹیبلیشمنٹ نہ صرف طاقت ور ہے بلکہ وہ سیاسی قوتوں کو مضبوط نہیں ہونے دیتی۔ یہ ایک سچ ہے، مگر اس سچ کا دوسرا پہلو خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سمیت معاشرے میں موجود اہل دانش یا عوامی رائے عامہ بنانے والے افراد یاملک میں موجود ان اداروں کی اپنی تضادات پر مبنی سیاست یا دانشورانہ کردار ہے۔ یہ لوگ نہ تو خود منظم ہوتے ہیں او رنہ ہی معاشرے کو کسی بڑے ایجنڈے پر منظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لوگوں کو جذباتی بنیادوں پر استعمال یا ان میں سیاسی طور پر شدت تو پیدا کی جاتی ہے لیکن جلد ہی یہ لوگ دوبارہ ان ہی قوتوں سے سمجھوتہ کرکے اپنی مزاحمت پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ یہ سیاسی قوتو ں کی جانب سے اپنے ماننے والوں یا حمایت کرنے والوں کو واضح پیغام ہوتا ہے کہ اصل چیز اصول یا نظریات نہیں بلکہ طاقت کی سیاست ہوتی ہے۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ سول بالادستی کی جنگ کبھی بھی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں۔ اس جنگ کو جیتنے کے لیے سیاسی جماعتوں او رقیادت کو نہ صرف خود کو منظم کرنا ہوگا بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی اس جنگ میں شامل کرنے کی حکمت عملی اختیا ر کرنی ہوگی۔ لیکن اس کے لیے پہلی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ پہلے سیاسی نظام اور اس سے جڑے افراد لوگوں میں واقعی اس احساس کو اجاگر کریں یا ان کا اعتماد بحال کریں کہ ان کی عملا جنگ سول بالادستی سے جڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ اس وقت ایک بڑا مسئلہ سیاسی نظام او رعام لوگوں کے درمیان اعتماد سازی کا بحران ہے۔ عام لوگوں سمیت تبدیلی سے جڑے افراد یا ادارے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مقصد نظام کو بدلنا کم بلکہ سیاست سے جڑے افراد کو زیادہ طاقت ور بنانا ہے۔

ہماری سیاسی قیادت نے جہاں سیاسی جماعتوں کو کمزور رکھا وہیں سیاسی اداروں جن میں پارلیمنٹ پیش پیش ہے اسے ایک کمزور ادارہ بنارکھا ہے۔ سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کی بجائے باہر کیے جاتے ہیں اور حتی تک کہ پارلیمانی نظام کے تقاضوں کے تحت نہ تو پارلیمانی کمیٹیوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے اور نہ ہی کابینہ کو۔ فیصلوں کی طاقت جب سیاسی نظام میں اداروں کے مقابلے میں فرد واحد سے جڑیں گے تو سیاسی بحرانوں یا بڑ ی سیاسی تبدیلی کے لیے سیاسی قوتیں بھی کسی بڑی جدوجہد کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ اب وقت ہے کہ ہم سیاست او رجمہوریت کو فرد واحد کی حکمرانی سے نکالیں او راسے سیاسی جماعتوں کے تابع کیا جائے اور وہ پورے سیاسی نظام میں ہر کسی کو جوابدہ ہوں۔

سیاست او رجمہوریت سمیت سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کی ترجیحات میں واقعی جمہوری بالادستی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کا عمل ہے تو یہ ہمیں ان کے سیاسی طرز عمل سمیت سیاسی فیصلوں میں نمایاں او رشفاف انداز میں نظر آنا چاہیے۔ کیونکہ اسی بنیاد بنا پر سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں سمیت ان کی قیادت کی سیاسی ساکھ بھی بحال ہوگی اور لوگ ان کے ساتھ مشکل چیلنجز میں کھڑے ہوں گے۔ مشکل یہ ہے کہ جب ہماری سیاسی قیادتیں کسی مشکل میں یا حزب اختلاف کی سیاست سے جڑی ہوتی ہیں تو ان کو سیاسی انقلاب یا سول بالادستی کی جنگ کی شدت سے یاد آتی ہے او راس پر خوب آوازیں اٹھائی جاتی ہیں۔ لیکن جب یہ ہی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار یا طاقت کی سیاست کا محور یا مرکزبنتی ہیں تو ان کی سیاسی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد انقلاب یا اصلاحات کو پیچھے چھوڑ کر عملا روایتی طرز کی سیاست سے جڑ جاتی ہیں تو تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

اسی طرح جب یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے اداروں کو قانون کے دائرہ کار یا آئینی دائرہ کار میں رہنا چاہیے اور سیاسی نظام کو بنیاد بنا کر اسے ہی مستحکم کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بات محض عدلیہ، فوج یا انتظامیہ تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں سیاسی نظام سے جڑے ہوئے لوگ بھی خود کو جوابدہی کے لیے پیش کریں۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی اقتدار میں آنے کے بعد قانونی شکنی اور آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں اور سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

اسی طرح رائے عامہ بنانے والے اداروں یا میڈiا سے جڑے ہوئے افراد کو بھی سیاسی نظام میں جوابدہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کا کام معاشرے سمیت طاقت کے مراکز پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرکے عملاً لوگوں میں سیاسی او رسماجی شعور پیدا کرنا تاکہ وہ جمہوری عمل کو مستحکم کرسکیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ ہی لوگ خود بھی طاقت کے مراکز سے جڑ کر اپنا حصہ لینے یا جھوٹ پرمبنی دانش مندی کرتے ہیں توجمہوری عمل کا کھیل پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس لیے سیاست او رجمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اور سیاست سے جڑے تمام فریقین اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور ایک ایسا ایجنڈا ترتیب دیں جو ملک میں قانون اور سیاسی بالادستی کو مضبوط بناسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments