ایک سسکتی ہوئی ثقافت کا المیہ


وہ ایک ڈچ انجنیئر تھا۔ انگریزی ہم سے بھی شکستہ بول کر ٹیلیوژن پر ایک لاہوری معلم جو کہ جدید پاپ گانے بھی گاتا ہے اس کے گانے پر جھوم کر مجھ سے پوچھا کہ کیا گا رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ وہ اپنی محبوبہ کے گھر کی بات کر رہا ہے کہ جس جس کو بھی چلنا ہے آئے اور ٹکٹ کٹا کر قطار بنائے اور چلے۔

بتانے کے لیے تو میں نے بتادیا، لیکن بعد میں مجھے شرم آگئی۔ شرم مجھے کیا آنی تھی، اس گورے نے بھی جھومنا چھوڑ کر مجھ سے پوچھ بیٹھا کہ: ”یہ محبت میں کمیونزم کب سے آئی یہاں؟ “

اور میں چپ ہوگیا۔

محبت میں کمیونزم یا شاعری کا ستیا ناس!

کافی دن مجھے یہ بات دل میں کھٹکتی رہی۔ اور ایک دن میں نے داستانٍ سرائے (ماڈل ٹاؤن لاہور) میں مرحوم اشفاق احمد صاحب کے حضور یہ بات رکھی۔ اس غیر رسمی بیٹھک میں لاہور کے دو بلند پائے کے ادیب بھی تشریف فرما تھے۔ بات کو گول مول کرکے دوسرے موضوع کو چھیڑدیا گیا۔ اچانک بابا اشفاق صاحب نے میاں محمد بخش کا ذکر کھول دیا۔

”اک گناہ میرا پیو ویکھے تے لاکھیں چھتراں مارے،
سؤ گناہ میرا مرشد ویکھے فیر وی گلے لگائے ”

”ایسی ثقافت کے ہوتے ہوئے اگر کوئی کنیں کنیں جانا بلو دے گھر کا گانا گائے تو حیرت تو ہوتی ہے۔ “ اشفاق صاحب نے کہا۔

بس یہی بات ہوئی اور ایسے لگا کہ تمام دوستوں کے اوپر جیسے سانپ گھوم گیا۔ اور محفل تھوڑی ہی چل کر پر امن طور پر منتشر ہوگئی۔

اس بات کو گزرے آج اچھا خاصا عرصہ بیت گیا ہے۔

میڈیا نے اس پورے عرصہ میں وقت کی رفتار سے بھی تیز ترقی کی ہے۔ اب ”بلو کے گھر“ سے پروموشن لے کر سرمایہ دار نے ”نچ پنجابن نچ“ کی حدوں میں اڑان بھری ہے۔ یا آج میلہ ویکھن آئیاں کڑیاں لاہور دیاں کے مدھر سنگیت پر شالیمار باغ میں نوخیز کڑیاں اپنی بانہیں اونچی کرکے ایک مخصوص ردھم میں ہاتھ ہلا رہی ہیں۔

یہ ہے ہماری جدید ثقافت جسے ہم اپنی آباء اجداد کی ثقافت کے اوپر ملمع کاری کرکے دکھا رہے ہیں۔

جب باغبان پورہ کا ایک دکاندار، یہ بتانے سے قاصر ہو کہ ”شاہ حسین“ کی درگاہ کا راستہ کون سا ہے تب دل خون کے آنسو ضرور روئے گا!

پنجاب، جو کہ پانچ دریاؤں کا ملک تھا، کہ جس کے ہرے بھرے کھیت اور لا ابالے قہقہے جیسے گیہوں کے کھیت میں پانی ڈالتے تھے، کہ جس کی ثقافت سے کچی مٹی پر بارش کے پاکیزہ قطروں کے وصال کی مہک آتی تھی، کہ جو بابا بلہے شاہ اور فرید کی کافیوں سے روحانیت کا علمبردار کہلواتا تھا، کہ جس میں وارث شاہ کی ہیر کو جب گایا جاتا تھا تو پورے ہال میں تمام آنکھیں نم ہوجاتی تھی، اس پنجاب کے زندہ دلوں نے اپنی ثقافت کا کیا حشر کیا ہے، ذرا ادھر تو دیکھیں :

شام ہوتے ہی لاہور کے تھیٹر کی تمام گلیوں اور شاہراہوں پر لوگوں کی بھیڑ جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ بمع خاندان اور بچوں کے بلیک پر بھی ٹکٹ خرید کر اسٹیج ڈرامے دیکھتے ہیں۔ اور اندر تیٹھر میں کیا بیہودہ جملے کسے جاتے ہیں کہ عزت والا انسان سن کر ہی اپنی انگلی ناک سے رگڑنا شروع کردے۔

پنجابی زبان کہ جس کی مٹھاس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب فقیر شاہ حسین یا سرکار باہو کا کلام سماعتوں تک پہنچے تو ایسے لگتا ہے جیسے اپنا اندر بھی آنسؤوں کے ساتھ باہر نکل آیا ہو۔ اور آج اسی پنجابی زبان کو واہیات مجروں اور تھیٹر کی گالیوں کے بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ اور لوگ ہنس رہے ہیں۔ (لاہور زندہ دلاں دا شہر)

یہ اس خوبصورت ثقافت پر ڈاکہ ہم اپنے وطن والوں نے ہی ڈالا ہے۔

جب مرحومہ ملکہ ترنم نے ”میں الہڑ پنجاب دی ماہیا، گبھرو پاکستان دا“ گایا تھا، تب ہم نے اس پر زندہ دلی کی لاج بچانے کے لیے رقص کیا تھا۔ کسی نے بھی اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اور شاعر کا گلا پکڑ کر یہ نہیں کہا تھا کہ میاں ثقافت ایک حسین اور لطیف ترین احساس ہے، اسے بے حیائی کے کوٹھے پر نہ نچاؤ! اگر ایسا کل کوئی کرتا تو آج اس معلم گانے والے کو یہ ”نچ پنجابن نچ“ گانے کی ہمت ہوتی!

اور ہم دھن دولت کے نشے میں اپنے آباؤ اجداد کی زبان کوٹھے والوں کی نذر کرکے دکانداری میں جٹ گئے۔ مڈل کلاسی پنجابی بھائی نے اپنے گھر اردو اور انگریزی کو ”ویلکم“ کہ کر اپنی مادری زبان کو ایسے پھینک دیا جیسے ایک نودولتیہ سرمایہ دار، پلنگ گھر میں لاکر چارپائیاں گھر کے پچھواڑے میں پھینک دیتا ہو۔

پہنچے ہوئے طبقے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے اور نہ ان کا دکھ! وہ نہ زبان کے لٹنے پر غیرت کھاتے ہیں اور نہ ثقافت کی بات ہی سمجھتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد شیروانی نے ہمارے کرتے کو قتل کردیا، ذرا پی ٹی وی کے ڈرامے تو دیکھیے اس زمانے کے جب اس کی اجارہ داری تھی۔

جب بھی ایک سمگلر کو دکھایا جانا مقصود ہوتا تھا، تب ایک پختون دکھایا جاتا تھا۔

پنجابی لنگی پہنے کھیتوں میں ایک اوباش ہی دکھایا جاتا تھا۔

سندھی ایک جاہل اور ڈاکو ہی نظر آتا تھا،

بلوچ تو کسی زمرے میں بھی نہ آتے تھے۔ (یہ سلسہ آج بھی جاری ہے، بلکہ زورو شور سے جاری ہے )

ہاں البتہ ایک مہذب انسان اگر دکھایا اور بتایا جاتا تھا تو وہ، ایک شہری ہی ہوتا۔ ہمیں اس بات سے گلہ نہیں کہ صرف شرافت انہیں کے گھر کی لونڈی ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا قصور کیا ہے جو دیہاتی ہیں، جو سادہ دل ہیں، ان کی زبان اور ثقافت کو ایسے توڑ موڑ کر پیش کیا جانا، آخرکار کس بات کا اشارہ ہے؟

اور آج۔ ہماری زبان سسک رہی ہے، بزاری کوٹھوں پر، یا میڈیا کے پھہلائے ہوئے واہیات گانوں میں، ثقافت کچلی جارہی ہے معاشرے کے ایک ناسور گروہ کے ہاتھوں!

جب بھارت میں، اک پنجابن، کڑی پنجابن دل چراکے لے گئی والے گانے پر فلمی مجرہ بالی ووڈ لگاتا ہے۔ تب وارث شاہ یا بلھا شاہ کی روح کے ساتھ کیا گزرتی ہوگی! یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

ہاں ایک چیز کا ادراک ضرور ہوتا ہے، کہ اپنے بچے جب اپنی ماں کی زبان سے نا آشنا ہوں تب خدا بخشے داغستانی شاعر رسول حمزاتوف کو، جس نے میرا داغستان کتاب میں لکھا ہے کہ ایک کوسنے والی نے اسے کہا کہ اس سے بڑا کوسنا کیا ہوسکتا ہے کہ: ”اللہ کرے تمہارے بچے تمہاری ماں کی زبان بھول جائیں! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments