نواز شریف نے اکلوتی شرط منوا کر ترمیم ایکٹ ”اوکے“ کیا


باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لندن میں مقیم قائد، سابق وزیراعظم نواز شریف نے آخر پر آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کے لئے مقتدر حلقوں سے منوانے کے لئے صرف ایک شرط رکھ دی تھی، جسے منظوری کرلئے جانے کی یقین دہانی کے فوری بعد ”نون“ لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو بل کی حمایت میں گو اہیڈ کا سگنل دیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے آخر میں شہباز شریف سمیت مقتدر حلقوں سے پس پردہ رابطے کرنے والی پارٹی قیادت کو دو ٹوک کہہ دیا تھا ”سب کھ چھوڑیں، پہلے مریم نواز کو پاکستان سے نکالنے کا بندوبست کریں، پہلے صرف مریم کی پاکستان سے لندن روانگی کی گارنٹی لے لیں اور پھر بل کو سپورٹ کریں“

اور یوں پارٹی قائد نواز شریف نے آخر میں اس بل کی حمایت کے بدلے میں صرف ایک مطالبہ رکھ دیا تھا اور پاکستان میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کی تھی ”میرے اگلے پیغام تک رکیں اور انتظار کریں“ اور برطانیہ میں مقیم سابق وزیراعظم کی یہ اکلوتی ”مانگ“ پوری کردیئے جانے کا سگنل ملتے ہی سوموار کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے دوبارہ طلب کیے گئے اجلاس میں سارے معاملات بلا چوں چرا طے پاگئے، اور ترمیمی ایکٹس بل کی منظوری کی غرض سے نئے سرے سے شروع کیا گیا پارلیمانی پراسیس یعنی رسمی کارروائی مکمل ہو پائی

دوسری طرف مذکورہ بل جس کا اصل مقصد موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لئے عہدے پر برقرار رکھنا ہے، اس کی منظوری کے لئے پارلیمانی پراسیس سابق وزیراعظم کی بیٹی اور ”نون“ لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے طویل کروایا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ”نون“ لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے دونوں اجلاسوں میں پارٹی کے مریم نواز گروپ اور شہبازشریف گروپ سے تعلّق رکھنے والے لیگی ارکان کے مابین بھی ترمیمی بل کی حمایت کے حوالے سے شدید ”تو تو میں میں“ ہوئی اور بتایا جاتا ہے کہ پارٹی میں نواز شریف کیمپ کا حصہ رہنے والے خواجہ آصف بھی شہبازشریف کی لائن ٹو کرتے پائے گئے جن پر بعض ارکان نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اراکین کو نواز شریف کے خط کے حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی، خواجہ آصف سمیت لندن جانے اور پارٹی صدر شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس کے بعد پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کرنے والے لیگی وفد میں شامل بعض اراکین نے خواجہ آصف کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا نواز شریف کی طرف سے ایسی کسی ہدایات والا کوئی خط نہیں ہے۔

”نون“ لیگ کے شہباز شریف یا دوسرے لفظوں میں ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ گروپ کی طرف سے پہلے ہی روز بل کی غیر مشروط حمایت کے شاکنگ اعلان سے پارٹی کارکنوں اور نواز شریف کے پرستاروں کی طرف سے شدید ردّ عمل سامنے آیا تھا کیونکہ پارٹی قیادت کو کارکنوں اور میڈیا کی طرف سے اس ”غیر معمولی تابعداری“ پر طعن و طنز کی جس بارش کا سامنا ہوا اور نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کا جو حشر نشر ہوا، لیگی کارکنوں کی صفوں میں شدید انتشار کے علاوہ ”ن“ لیگ اراکین پارلیمنٹ کے ذہنوں میں جو کنفیوڑن اور بے یقینی پھیلی، اس کی بنیاد پر پارلیمانی پارٹی کے مریم نواز گروپ نے حکومت اور شہبازشریف گروپ کی اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا جس کے تحت گزشتہ جمعہ کو ہی گھنٹہ بھر میں ہی اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری دلوانا مقصود تھا۔

بہرحال ”نون“ لیگ کے قائد نواز شریف کی واحد شرط مان لئے جانے کے بعد ترمیمی ایکٹس بل کے حق میں پارٹی کی حمایت کا وزن ڈالنے سے قبل اعلیٰ قیادت کی وہ ہدایات بھی کالعدم ہو گئیں جن میں رسمی پارلیمانی پراسیس کے لئے کم از کم ٹائم فریم 15 جنوری کا دیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مریم نواز کی بیرون ملک روانگی کے انتظامات کی بابت مثبت اشارے مل جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو کنٹرول کرنے والے نواز شریف کی ”مانگیں“ پوری ہو جانے کا واضح پیغام موصول ہوگیا، جو سکڑتے ہوئے بالآخر سنگل ”مانگ“ تک محدود ہو چکی تھیں۔

ذرائع کے مطابق شریف فیملی ذاتی مسائل کے حوالے سے اس قدر ڈیسپریٹ اور فوری ریلیف کے لئے اپنے مطالبات کے حوالے سے اتنی محدود ہوچکی بتائی جاتی ہے کہ پچھلے دنوں رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری سمیت ”نون“ لیگ کی 2 ایم پی اے خواتین پارٹی قائد کی عیادت کے لئے جب لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں ان کی قیام گاہ پہنجیں تو انہیں وہاں نواز شریف سے ملنے ہی نہیں دیا گیا اور انہیں شریف فیملی کے سخت ناروا سلوک کا نشانہ بننا پڑا، حتیٰ کہ مذکورہ دونوں لیڈی ایم پی ایز کو نہ صرف مناسب طور پر وہاں بٹھایا نہیں گیا بلکہ کچھ دیر بعد جب نواز شریف کہیں باہر جانے کے لئے اپنے کمرے سے نکلے تو انہیں ناگواری کے سے لہجے میں کہا گیا ”جلدی سے سائڈ پہ ہو جائیں، میاں صاحب نے گزرنا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments