ناکام شادیاں اور عمران خان


بزرگوں کا کہنا ہے کہ جن شادیوں سے پہلے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں وہ اکثر ناکام ہی ہوتی ہے، اس لئے اوقات سے بڑھ کر وعدے نہیں کرنا چاہیے، مثلاً لڑکے لڑکیوں پر اپنا رعب جمانے کے لئے وعدے کرتے ہیں کہ میری آمدن بہت ہے، تم کو سونے سے لاد دوں گا، بڑا گھر بنا کر دوں گا، بڑی گاڑی بھی دوں گا، نوکر چاکر تمہارے آگے پیچھے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگر شادی کے بعد جب وہ وعدے پورے نہیں کیے جاتے تو لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔

معروف کامیڈین شوکی خان مرحوم کا ایک ڈرامہ تھا جس میں وہ محبت کی شادی کرتا ہے، شادی کے بعد وہ بھی وعدے پورے نہ کرسکا تو میاں بیوی میں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں جس میں ہیروئن شوکی خان سے کہتی ہے کہ شادی توں پیلے تے بڑے وعدے کتیے سن، میرے پیر تو کے پیندا سی تے کہندا سی پیسی دا سواد آندہ اے۔

یہی حال ہمارے محبوب اور عوام کے ہر دلعزیز وزیراعظم جناب عمران خان کا ہے، اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام کا دل جیتنے کے لئے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے کہ مجھے ایک بار وزیراعظم بنا دو، ملک سے کرپشن ختم کردوں گا، ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، 50 لاکھ گھر بنا کر اس کی چابیاں عوام کے حوالے کروں گا، ملک ترقی کی شاہراہ پر 200 کلومیٹر کی سپیڈ سے دوڑے گا، ملک کو امن کا گہوارہ بنا دوں گا، دوسرے ممالک سے لوگ پاکستان ملازمت کرنے آئیں گے۔ کسی کو این آر او نہیں دوں گا، کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا وغیرہ وغیرہ۔

حکومت میں آنے کے سوا سال بعد عمران خان صاحب ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرسکے جس پر اب لوگ احتجاج کررہے ہیں اور میڈیا عوام کا احتجاج سامنے لائے تو اندر آمریت جاگ جاتی ہے اور میڈیا کو قابو کرنے کے فارمولے آزمائے جا رہے ہیں، تبدیلی سرکار نے سوا سال میں عوام کو جو حشر کیا ہے وہ بیان سے باہر ہے، اتنی بری حالت عوام کی کسی حکومت کی نہیں دیکھی، لوگ ایک وقت کی روٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں، بجلی، گیس اتنی مہنگی کردی ہے کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑی عیاشی ہے اور اسے عوام کے لئے اتنا مہنگا کردیا جائے کہ وہ اس کا خواب بھی نہ دیکھیں۔

سوا سال میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ مہنگائی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے نکال دیا ہے، زیادہ تر ملازمین نجی کاروباری شعبہ سے نکالے گئے، لوگوں میں قوت خرید ہی ختم ہوگئی ہے، میرے علاقے میں تقریباً چار ہوٹل بند ہوگئے جس سے سو ڈیڑھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں، اس موسم میں سبزیاں انتہائی سستی ہوجاتی تھیں مگر کوئی سبزی 100 روپے کلو سے کم نہیں ہے۔ بجلی کی قیمت میں ہر ماہ ایک سے دو روپیہ فی یونٹ اضافہ کیا جارہا ہے، میرا دسمبر کا بل 1700 روپے ہے جبکہ فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں 2200 روپے ڈال دیے گئے جس سے بل 4 ہزار روپے تک پہنچ گیا۔ ٹی وی چینلز پر عوام دھائی دیتے نظر آتے ہیں کہ 500 روپے بجلی کا بل ہے جبکہ اس میں 1200 روپے فیول ایڈجسمنٹ ڈال دی گئی ہے، غریب لوگ یہ 1200 روپے کا اضافہ کہاں سے پورا کریں۔

سردیوں میں ایک ہی سہولت ہوتی تھی دال روٹی کھا کر گیس ہیٹر چلاتے تھے جس کا بل ایک ہزار روپے سے 1500 روپے تک آجاتا تھا اب یہ بل 7 سے 8 ہزار تک آرہا ہے جس کی وجہ سے گیزر بھی بند پڑا ہے اور ہیٹر چلانے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا، نجی اداروں میں پانچ سالوں سے تنخواہیں نہیں بڑھائی جارہی ہیں اس میں یہ اضافہ کہاں سے برداشت کیا جائے؟

حکومت کا یہ حال ہے کہ اس کو سوا سال گزرنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کرنا کیا ہے، ہرفیصلہ پر یوٹرن لے لیا گیا ہے، کسی کو این آر او نہیں دوں گا پھر سب نے دیکھ لیا سب کو این آر او مل گیا اور اس کا مدعا عدلیہ پر ڈال دیا گیا، کرپشن کا پیسہ نکلوانا تھا آج تک ایک پائی نہیں نکلوا سکے بلکہ اب عمران خان کے دوستوں کو مشکل سے نکالنے کے لئے نیب آرڈیننس جاری کردیا گیا، 50 کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب نہیں پوچھ سکے گا، 50 کروڑ حکومت کے نزدیک کوئی رقم ہی نہیں، 50 کروڑ کی چھوٹ ایسے دی گئی جیسے 500 روپے ہوں، سرکاری افسران اور ٹھیکیداروں کے لئے 50 کروڑ روپے میں سے 5 کروڑ دائیں بائیں کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس کو نیب کا باپ بھی نہیں پکڑ سکتا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ عمران خان جنہیں کپتان بھی کہا جاتا ہے ان کو علم نہیں تھا کہ ان کی ٹیم میں کیسے کیسے ”ہیرے“ ہیں، ان کی صلاحیتیں ایسی تھیں کہ وہ ان کے دعوؤں کو عملی جامہ پہنا سکتے اگر کپتان اتنا لاعلم تھا تو پھر ٹیم میدان میں اتاری ہی کیوں تھی، چپ چاپ اپوزیشن کرتے رہتے جیسے 22 سال کرتے رہے، کم ازکم عمران خان کی عزت تو بچ جاتی۔

کہا جارہا ہے کہ معیشت مستحکم ہوچکی ہے، تجارتی خسارہ کم ہوگیا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوگیا اور نجانے کیا کیا اگر یہ سب کچھ ہوگیا ہے تو یکم جنوری سے پٹرول کیوں مہنگا کیا ہے، گیس کی قیمت پھر کیوں بڑھائی ہے، روزمرہ کی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں تو کوئی کمی نہیں ہورہیں، پٹرول اور گیس کی مد میں عوام کا مزید کتنا خون چوسنا چاہتے ہیں اب عوام میں تو خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بچا جسے نچوڑا جاسکے۔

حکومت میں آنے کے سوا سال بعد مٹی پلید کرانے کے بعد اب 2020 ء میں عوام کو پھر وہی شادی والے سہانے خواب دکھانا شروع کردیئے گئے ہیں کہ نئے سال میں نوکریاں ملیں گی، فروری، مارچ کے بعد عوام کو ثمرات ملیں گے، مہنگائی میں کمی ہوگی، عوام کو سکھ کا سانس ملے گا مگر مجھے لگتا ہے یہی ہے کہ نئے سال میں بھی یہ شادی والے جھوٹے سہانے خواب ہی ہوں گے اور شادی بری طرح ناکام ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments