روسی ادیب میکسم گورکی کی ایک خوبصورت کہانی: اس کا محبوب (Her lover)


دنیا کی ایک ارب یا ایک کھرب لوگوں کی آبادی میں ایسا کون سا شخص ہوگا، جو تصورات کی دنیا میں نہیں رہتا ہو اور جس کی ایسی خواہش نہ ہو کہ اس سے محبت کرنے والا کوئی نہ ہو، یہی خواہش جب روسی اہل قلم میکسم گورکی کا ایک کردار تھریسا کرتی ہے اور خود کو ننھی سی فاختہ کہلاتی ہے، تو گورکی کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے کہ لو بھائی اس کی شکل تو ذرا دیکھو، ایسی بھیانک اور کالے رنگ کی شکل و صورت ہے اس کی، جیسے کسی نے سیاہ رنگ کے آتشدان میں اس کا سر گھسایا ہو، بلکہ جیسے ننھی سی فاختہ نے ساری زندگی آتشدان میں گزاری ہو، پھر کسی نے اس کی پر نہیں دھوئے ہوں اور قد کاٹھ تو کسی بے ہنگم اونٹنی جیسی، بس بدصورتی تو اسی پر ختم ہے۔

واہ روسی ادیب میکسم گورکی نے کیا خوبصورت کہانی لکھی ہے، ”اس کا محبوب“ ”Her lover“، آئیے آج ذرا اس پیاری سی تخلیق پر تھوڑی دیر کے لئے بات ہو جائے۔

اس شاندار کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ماسکو شہر میں غریبوں کے علاقے میں ایک پرانی سی بلڈنگ میں ایک ننھے سے فلیٹ میں ایک طالب علم رہتا ہے۔ جبکہ بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس فلیٹ میں بہت ساری بدنام زمانہ عورتیں بھی قیام پذیر ہوتی ہیں۔ ایک دن وہ طالب علم اپنے فلیٹ میں موجود ہوتا ہے کہ لمبے قد کی ایک بدشکل پولش عورت وہاں داخل ہوتی ہے، اس کی شکل وشباہت سیاہ قسم کی ہوتی ہے، وہ اپنا نام تھریسا بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اس کے ہمسائے میں ایک فلیٹ میں رہتی ہے۔

اب وہ اجنبی عورت اس طالبعلم سے فرمائش کرتی ہے کہ وہ اس کے لئے ایک خط لکھے، جو اس کے محبوب بولیس کے نام ہو۔ اس طرح وہ اس طالب علم سے ایک بہت ہی طویل خط لکھواتی ہے، جس میں وہ اپنے دل کو کھول کر رکھ دیتی ہے اور اپنے پیارے بولیس کے لیے اپنی بے انتہا چاہتوں کا رونا روتی ہے، اس کی 6 سال کی جدائی کا ذکر کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی بے توجہی کا گلہ بھی۔ وہ جب بولیس کو مخاطب کر کے کہتی ہے کہ تمہاری ننھی سی فاختہ تمہاری جدائی میں تمہارے لئے کیسے تڑپ رہی ہے، تو طالب علم مسکرائے بغیر نہیں رہتا۔

کیونکہ کہاں ننھی سی فاختہ اور کہاں لمبے قد کاٹھ کی بے ہنگم موٹی سی عورت تھریسا۔ طالب علم کو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ننھی سی فاختہ بہت طویل عرصہ سے کسی کالی چمنی میں رہ رہی ہو اور کبھی کسی نے اس کے سفید پر نہیں دھوئے ہوں۔ چند دن کے بعد وہ خاتون وہاں دوبارہ آتی ہے اور ایک نئے خط کے لیے اصرار کرتی ہے۔ اب اس طالبعلم اس وقت سخت غصہ آتا ہے کہ جب اسے علم ہوتا ہے کہ تھریسا نے بولیس کو وہ پہلے والا خط ہی ابھی تک نہیں روانہ کیا۔

اب طالب علم پر یہ بھید بھی کھلتا ہے کہ تھریسا کا کام ہی یہی ہے کہ وہ مختلف لوگوں سے اس طرح کے خطوط لکھواے۔ تب وہ اسے دوسرے لوگوں کے پاس لے جاے اور ان سے پڑھواے۔ پھر انہی لوگوں سے بولیس کی طرف سے اپنے نام محبت بھرے خطوط علیحدہ سے لکھواے اور لوگوں کے پاس لے جا، جا کر ان سے یہ خطوط بھی پڑھواے۔ اب طالب علم اس انکشاف پر حیران بھی ہوتا ہے کہ دراصل بولیس نام کی کسی ایسے شخص کا کوئی وجود سرے سے ہی نہیں، جو کبھی تھریسا کا محبوب رہا ہو۔

طالب علم جب تھریسا سے پوچھتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے، تو وہ بہت معصومیت اور نہایت سادگی سے مسکرا کر جواب دیتی ہے کہ اسے ایسا کرنے میں لطف محسوس ہوتا ہے اور اسے سچ مچ احساس ہونے لگتا ہے کہ کوئی اس سے بھی محبت کرتا ہے۔ تب چند دنوں کے بعد طالب علم کو پتہ چلتا ہے کہ تھریسا جیل چلی گئی ہے اور وہاں اس کی موت واقع ہوگئی یے۔

میکسم گورکی کو روس کا بابا انقلاب کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ”ماں“ جیسا اچھوتا ناول لکھا۔ گورکی کی بہت ساری تحریریں ہیں، جن میں ان کے مختلف ناول اور بہت ساری کہانیاں شامل ہیں۔ ان کی دنیا رنگین، ان کے پلاٹس میں تنوع اور ان کے کردار ایک دوسرے سے یکسر مختلف، انتہائی خوبصورت، اچھوتے، شاندار اور رنگین ہیں۔ ان تمام کرداروں کی دنیا تو انتہائی نرالی ہے اور یہ تمام کردار ایک دوسرے سے یکسر الگ اور نرالے بھی۔

چھبیس مزدور اور ایک حسینہ کی طرح موجودہ کہانی ”اس کا محبوب“ کی دنیا بھی گورکی کی دوسری کہانیوں کی طرح بہت مختلف اور دلچسپ ہے۔ کمال ہے ایک چھوٹا سا افسانہ اور اس میں اتنی شاندار اور حیران کن کردار نگاری، جو تھریسا کے کردار کو یادگار بناتی ہے۔ اس کہانی کے پیغام میں دکھی انسانیت کے لیے جو تڑپتی روح موجود ہے اور یہاں جھانکتی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ یہاں گورکی دبے دبے الفاظ میں کہتا ہے کہ ہر انسان کو محبت کا حق پہنچتا ہے، ہر انسان کا جی چاہتا ہے کہ کوئی بھی اسے چاہنے والا اور اس کی تنہائی کا ساتھ دینے والا ہو۔

گورکی اس بات پر زور دیتا ہے کہ محبت کرتے وقت انسان بالکل یہ نہیں سوچتا کہ اس کی رنگت کیسی ہے، وہ خوبصورت ہے یا بدصورت۔ بہت سارے لوگ بدہیت اور بد شکل ہوتے ہیں، لیکن ان کی روحیں انتہائی خوبصورت اور حسین۔ اس پیغام کے ساتھ ساتھ موجودہ افسانے میں بیسویں صدی کے مشینی دور کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس نے انسان کو تنہائی کا ایسا شکار کر دیا ہے کہ وہ ایک تصوراتی اور خیالی دنیا میں رہنے والا شخص بن گیا ہے۔

جسے سچی محبت کے لئے کوئی بھی مخلص ساتھی میسر نہیں اور وہ تصور کی دنیا میں رہ کر اپنی یہ حسرت پوری کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم کافکا، تھامس ہارڈی اور ڈی ایچ لارنس کی تخلیقات اٹھائیں، تو وہ تمام بھی بیسویں صدی کے اس تاریک پہلو کے متعلق یہ رونا روتے ہوئے ہمیں ملیں گے۔ گورکی کی ہر تخلیق ایک کائنات ہے اور اس حسین کائنات میں رہ کر ہمیں زندگی کا بھرپور لطف محسوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments