پل بھر میں یہ کیا ماجرا ہو گیا


الحمدللہ، 7 جنوری 2020 کو پاکستان میں وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔

عام انتخابات سے قبل اور بعد میں قومی منظر نامے پر صرف ایک گہری سیاسی خلیج نظر اتی تھی۔ وزیراعظم، حکومت، حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے مابین وہ کم از کم رسمی ورکنگ ریلیشن شپ بھی نہیں تھی جو پارلیمانی نظام حکومت میں حکومتی امور انجام دینے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

حزب اختلاف کے بقول قانون سازی کی پارلیمانی روایات کا مبینہ بلادکار جاری تھا۔ اپوزیشن کی آواز سنی ان سنی کی جا رہی تھی اور ورکنگ ریلیشن شپ کی عدم موجودگی کا حل آرڈیننس جاری کر کے نکالا جا رہا تھا۔

باہم انسانی سطح پر احترام، پارلیمانی روایات کی پاسداری اور عوامی مفاد کے پیش نظر تعاون عنقا تھا۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ ریاستی اداروں کی طاقت استعمال کر کے اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عام شہریوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کی خبریں بھی کہیں کہیں روایتی میڈیا اور اکثر سوشل میڈیا پر زیر بحث آتی تھیں۔

میڈیا کو درپیش سنسر شپ کا رونا صرف میڈیا اور اپوزیشن نہیں، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی رو رہے تھے۔

اس صورت حال کا بدترین اثر اقتصادی صورت حال پر پڑ رہا تھا۔ سرمایہ کاری تعطل کا شکار تھی، ملازمتیں غیر موجود اور افراط زر کے ہاتھوں بڑھتی مہنگائی روز افزوں تھی۔ یوٹیلیٹیز کی بڑھتی قیمتیں عوام کے گھریلو بجٹ تباہ کر رہی تھیں۔ فی کس آمدن کم ہو چکی تھی اور گزشتہ برس شرح ترقی جی ڈی پی کا محض 3 فیصد رہی تھی۔

حدوں سے نکلی ہوئی اس سیاسی تقسیم بلکہ دشمنی کا منفی اثر قومی اہمیت کے حامل معاملات پر بھی پڑ رہا تھا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ کشمیر میں مودی حکومت کی بدترین جارحیت کے موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی کشمیریوں سے یک جہتی کے لیے ایک متحدہ آواز بلند ہونے کی بجائے اس فورم سے اٹھنے والی داخلی سیاسی نفرت اور دشمنی کی بازگشت زیادہ بلند آہنگ تھی۔

دو ہفتے قبل تک موجود اس پس منظر میں دفعتاً نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی شمولیت سے قومی حکومت کا قیام ایک محیر العقول اور عظیم کارنامہ ہے۔ بقول کسے

پل بھر میں یہ کیا ماجرا ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

اپنے لڈن جعفری بتا رہے تھے کہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ”ماجرا“ غلط العام ہے۔ دراصل یہاں ”باجوہ“ ہے۔ یعنی

پل بھر میں یہ کیا باجوہ ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

ہہرحال ہم لڈن جعفری کے اس دعوے کو محض یاوہ گوئی اور خواہ مخواہ کا اردو دانی کا زعم سمجھتے ہیں۔ وہ جو بھی کہیں ہم اس عظیم پیش رفت پر بہت شاداں ہیں۔ پرانی پارلیمانی روایات کا رونا روتے سیاسی کارکنوں اور پی ٹی ایم کے دو ایم این اے حضرات کو اتنا اندازہ نہیں کہ یہ ایک نئی اور عظیم روایت قائم ہوئی ہے۔ اتنا ”سرعتِ اتفاق“ اگر ملک میں امن و آشتی اور اتفاق و محبت کا زمزمہ رواں کر دے تو قوم کو اور چھنکنا چاہیے۔ لڈن جعفری نے کان میں پھر بتایا کہ ارے او اردو سے نابلد پنجابی مورکھ، چھنکنا نہیں جھنجھنا ہوتا ہے۔ لڈن کیا جانیں کہ چھنکنا عطا کرنے والے کی جس حاتم طائیانہ اور بے نیازانہ کیفیت کا اظہار کرتا ہے جھنجھنا اس کی گرد بھی نہیں چھو پاتا۔

بحیثیت ایک شدید محب وطن پاکستانی کے تاہم ہمیں افسوس ہے کہ قومی حکومت کے قیام اور عدیم المثال قومی یک جہتی کے اس موقع پر پی ٹی ایم کے دو نمائندوں کو کھنڈت نہیں ڈالنی چاہیے تھی۔ کیا روح پرور منظر ہوتا کہ سارے کے سارے عوامی نمائندے ایک صف میں کھڑے ہوتے۔ اس لیے ہماری خواہش اور اپیل ہے کہ اگرچہ قومی حکومت میں اپوزیشن کا وجود کچھ خاص معنی نہیں لکھتا اس کے باوجود محسن داوڑ کو قائد حزب اختلاف بنا دیا جائے تاکہ قومی اتفاق رائے سے نابلد ان نوواردوں کا دف مارا جا سکے۔ ویسے بھی مستقبل کے چیلنجز کے پیش نظر دف مارا جانا ضروری ہے۔

ابھی ہمیں قومی یک جہتی کے حصول کے لیے ایسے کئی چیلنجز درپیش ہوں گے جہاں قومی اتفاق رائے کے سات جنوری جیسے مظاہروں کی ضرورت ہو گی۔ دستور پاکستان ایک اہم اور مقدس دستاویز ہے جس کے تقدس اور تحفظ کی قسم آئینی عہدے دار اور اہم ریاستی عہدوں پر فائز ہونے والے اٹھاتے ہیں۔ اس کے تحفظ کی ایک صورت اسے ناپسندیدہ ترامیم سے پاک کرنا بھی ہے۔ ہماری رائے میں یہ کام اب شروع ہو جانا چاہیے۔ جب جنگل ہرا ہونا شروع ہو ہی گیا ہے اور اسلام آباد کے مضافات میں 18 کے نام سے ایک ہری بھری سوسائٹی بھی وجود میں آ گئی ہے تو ایسے میں زیادہ نہیں تو دستور میں کم از کم اس نمبر کی ایک خشک اور بے رنگ ترمیم کی گنجائش تو بہر حال نہیں بچتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments