یوم تکریم استاد اور ہماری دیرینہ خواہش
بچپن کے دنوں کی بات ہے کہ ایک مرتبہ ہم اپنے استاد کزن کے ساتھ جا رہے تھے کہ سر راہ ایک جوان رعنا نے نہایت عجز و انکسار سے انہیں جھک کر فرشی سلام کیا۔ کزن نے خوشی اور تجسس کے ملے جلے تاثرات سے اس کے سلام کا جواب دیا اور سر پر دست شفقت پھیرا۔ نوجوان نے ہمارے کزن کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا کہ استاد محترم نے انہیں ٹھیک سے پہچانا نہیں۔ سو اس نے نہایت مہذب اور شائستہ لب و لہجے میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا نام شہر یار ہے اور میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہارٹ کے شعبے میں سپیشلائزیشن کر رہا ہوں۔ میں دس سال قبل فلاں سکول میں آپ کا شاگرد رہ چکا ہوں۔ آپ ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ آج میں جس مقام پر ہی ہوں آپ جیسے عظیم، مشفق اور مخلص اساتذہ کی وجہ سے ہوں۔
اس خوبصورت اور نستعلیق نوجوان کو اپنی تعریف میں رطب اللسان پا کر ہمارے کزن کا سینہ خوشی سے اور بھی پھول گیا اور ان کی خود اعتمادی کو چار چاند لگ گئے۔ کزن نے نوجوان کو چائے پانی کی رسمی دعوت دی جسے اس نے شکریے کے ساتھ مسترد کردیا۔ نوجوان اجازت لے کر رخصت ہو گیا اور ہم نے بھی اپنی راہ لی۔ بظاہر بات آئی گئی ہو گئی مگر سر بازار پیش آنے والا یہ واقعہ ہمارے تحت الشعور میں نقش ہو کر رہ گیا۔ ہم جو اپنے استاد کزن سے پہلے ہی مرعوب رہتے تھے اس واقعے کے بعد ان سے باقاعدہ متاثر بھی ہو گئے۔
ہمیں ان پر رشک آ رہا تھا۔ اس دن سے ہم نے بھی یہ عزم کر لیا کہ ہم بھی کزن کی طرح پڑھ لکھ کر استاد بنیں گے اور اسی طرح اپنے شاگردوں کے دلوں میں گھر کر یں گے۔ انہیں اپنے تبحر علمی، خوش اخلاقی اور خوش پوشی کا گرویدہ بنائیں گے۔ پھر کسی روز اسی طرح راہ چلتے، کسی گاڑی میں، بازار میں، مارکیٹ میں یا پارک میں ہمیں اپنا کوئی ہونہار، محنتی اور عملی زندگی میں قدم رکھنے والا شاگرد ارجمند مٶدبانہ کورمش بجا کر ملے گا۔
ہم حافظے پر زور دینے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ملے جلے تاثرات سے اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ ہماری پریشانی بھانپتے ہوئے نہایت عاجزی سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے گویا ہوگا کہ میرا نام فلاں ہے۔ میں آرمی میں کیپٹن ہوں۔ فلاں کلاس میں آپ سے اردو پڑھی ہے۔ آپ سے پہلے اردو زبان و ادب کا محض نام سنا تھا، ادبی ذوق اور میر، غالب، اقبال اور فیض جیسے شعرا کی عظمت اور میر امن، سرسید احمد خان، الطاف حسین حالی، مشتاق یوسفی، پطرس بخاری اور شفیق الرحمٰن جیسے نابغہٕ روزگار ادیبوں کے نام و مقام سے آشنائی آپ کے معجز نما ہنر کا اعجاز ہے۔ یہ آپ ہی کی بے مثال اور باکمال تربیت کا نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سے آج میں پاک آرمی میں اتنے بڑے عہدے پر براجمان ہوں۔ یہ سب کچھ سن کر نہ صرف میرے ہمراہ چلنے والے میرے احباب رشک و حسد سے مجھ پر مرنے لگیں گے بلکہ ایک بار تو راہ چلتے لوگ بھی چونک اٹھیں گے اور ہماری عظمت کے قائل ہو جائیں گے۔
طالب علمی کے دور میں ہم نے جس لا ابالی پن، غیر ذمہ دارانہ رویے اور اوٹ پٹانگ طرز کا مظاہرہ کیا ہر کسی نے ہمارے استاد بننے کی پورے وثوق سے پیشن گوئی فرمائی۔ اپنے والدین کے سہانے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے ہم آخر کار بڑی جان جوکھوں کے بعد استاد بننے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ استاد کے مقام پر فائز ہوتے ہی بچپن کا بھولا بسرا خواب قلب و ذہن میں عود کر آیا اور ہم کزن کی طرح اپنی مثالی پذیرائی کا بے تابی سے انتظار کرنے لگے۔ ایک روز تو ہمیں اس وقت سخت دھچکا لگا جب محلے کی ایک بڑی بی نے رسمی سلام دعا کے بعد پوچھا کہ کوئی کام کاج مل گیا ہے یا ابھی استاد ہی ہو؟ یہ سن کر ہمیں اس علم دشمن اور استاد کش قوم کے سفاکانہ رویے پر بہت دکھ ہوا۔ اس روز ہمیں واقعی یقین ہو گیا کہ یہ بدقسمت قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
اس دشت کی سیاحی کرتے جب کافی سال بیت گئے اور سر و داڑھی کے بالوں میں چاندی اترنے لگی تو دل میں یہ خواہش شدت سے مچلنے لگی کہ ہمیں بھی کوئی شاگرد ارجمند ملے جو اعلٰی مقام پر پہنچا ہوا ہو اور ہماری تعلیم تربیت کے طریقہ کار اور استادانہ صلاحیتوں کو سر راہ خراج تحسین پیش کرے۔ خدا خدا کر کے وہ لمحہ آ ہی گیا مگر کچھ اس طرح کہ ہماری تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ہم اپنے تین چار بے تکلف اور ایک عدد دوسرے شہر سے تشریف لائے دوست کے ہمراہ جارہا تھا۔
گلی کے نکڑ پر ایک چھان بورے والا بڑی رسیلی اور پر سوز آواز لگا رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے آٶ دیکھا نہ تاٶ فوراً اپنی ریڑھی کے نیچے چھپ گیا۔ ہم سب کے لیے اس کی یہ حرکت غیر متوقع اور عجیب تھی۔ قریب پہنچ کر ہم میں سے ایک دوست نے اس سے اس حرکت کی شان نزول پوچھی۔ اس نے جھینپتے لجاتے ہوئے جو کچھ بتایا اسے سن کر ہمارے پاٶں تلے سے زمین اور میرے دوستوں کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ کمبخت نے چھوٹتے ہی میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کہا کہ یہ سر سکول دور میں میرے استاد رہے ہیں۔ ایک بار انہوں نے بری طرح میری پھینٹی لگائی اور میرے شجرہٕ نسب کو سب میں مشتہر کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے سکول کا منہ نہیں دیکھا اور نہ اب آپ کو منہ دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر ہمارے دوستوں کامنہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور ہم اپناسا منہ لے کے رہ گئے۔
تھوڑا آگے گئے تو گاڑیوں کی ورکشاپس آ گئیں۔ ابھی تھوڑی دیر قبل وقوع پذیر ہونے والے واقعے کی وجہ سے خجالت و ندامت کا احساس باقی تھا اور پیشانی عرق ندامت سے ہنوز آلودہ تھی کہ بدقسمتی سے ایک اور اندوہناک سانحہ ہو گزرا۔ ہوا یوں کہ سامنے ورکشاپ سے ایک تنو مند نوجوان گریس و آئیل سے لتھڑے ہوئے کپڑوں اورہاتھوں سمیت تقریباً بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا۔ قریب آتے ہی فریفتگی اور وارفتگی سے کورنش بجا لایا۔ انہیں لت پت ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور ہمارے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا کر انہیں بوسہ دیا۔
ابھی ہم حیرت کے سمندر میں غوطہ زن صورت حال سمجھنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ نوجوان نے بڑی عقیدت مندی سے کہا کہ سر میرا نام شفاقت اور میں سکول کے زمانے میں آپ کا ہونہار طالب علم رہ چکا ہوں۔ میں وہی شفاقت ہوں جو صداقت، عدالت اور شجاعت تینوں کا سبق پڑھا کرتا تھا۔ میٹرک میں لگاتار تین بار فیل ہونے کے بعد ابا جی نے قرض لے کر یہ ورکشاپ کھول کر دی تھی۔ شروع شروع میں مسئلہ ہوا مگر پھر اللہ نے مہربانی کی اور آج میری ورکشاپ میں پانچ مکینک کام کرتے ہیں۔ دو تین ہزار کی دیہاڑ لگ جاتی ہے۔ تعلیم مکمل نہ کر سکنے کا بہت قلق ہے مگر اس محرومی کو اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو اس حرماں بختی کا ازالہ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوا کر کروں گا۔ آپ کی گاڑی کا کسی بھی طرح کا کام کاج ہو تو اسے اپنی ورکشاپ سمجھ کر تشریف لایا کیجیے۔ آپ کی خدمت میرے لیے سعادت ہوگی۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں سب آپ کا فیض ہے۔
یہ دلچسپ اور مضحکہ خیز منظر میرے رفقائے کار کے لیے تفنن طبع کا باعث تھا اور وہ ہنستے ہنستے دہرے ہوئے جارہے تھے جبکہ ہمیں اس وقت ان کی ہنسی زہر لگ رہی تھی۔ قبل اس کے کہ مزید کوئی ”ہونہار اور کامیاب“ شاگرد کسی کونے کھدر ے سے منہ نکال کر ہماری ”استادی“ کو سر عام خراج تحسین پیش کرتا ہم نے جلدی سے گھر کی راہ لی۔
- میری بیٹیاں اور میں – یوم خواتین کا پیغام - 08/03/2024
- لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا! - 23/07/2022
- یوم الحاق پاکستان کی حقیقت - 20/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).