فلسفے کا سب سے بڑا سوال


کائنات ایک گھمبیر سنجیدگی اور حد درجہ وسعت کا حامل ہے۔ یہ اتنی وسعت لیے ہوئی ہے کہ اس میں ہماری زمین کی حیثیت negligible ہے۔ یعنی اگر کوئی دعوا کرلے کہ کائنات میں زمین کا وجود نہیں ہے تو ریاضی کے اصول کے تحت اس کا دعوا درست ہوگا۔ بہ قولِ غالب :

ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

آئن سٹائن سے ہائڈروجن بم کے ذریعے دنیا کی تباہی بارے سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پہلے تو ایسا کوئی امکان نہیں ہے، اور اگر بالفرض یہ دنیا تباہ بھی ہوگئی تو اتنی بڑی کائنات میں کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر بھی انسان مدعی ہے کہ یہ کل کائنات اس کے واسطے تخلیق کی گئی ہے اور کائنات کا وجود اس کے ہی دم سے ہے۔ تاہم انسان خود کو حقیر، بے بس اور فطرت کے آگے بے دست و پا بھی گردانتا ہے اور بہ قولِ سودا سمجھتا ہے کہ :

اس ہستیِ موہوم میں کس کام کا ہوں میں

یا بہ قولِ غالب :

خوشی جینے کی کیا، مرنے کا غم کیا؟

ہماری زندگی کیا اور ہم کیا؟

اور عظیم برطانوی ادیب آسکر وائلڈ کہتے ہیں :

” The world is a stage، but the play is badly cast۔ “

فلسفے کا سب سے بڑا سوال شاید یہ ہے کہ اس عظیم و بسیط کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے یا خود خدا کا تصور انسانی ذہن کا اختراع ہے؟ زمانہ قبل از تاریخ سے یہ سوال زیرِ بحث چلا آرہا ہے۔ افلاطون جیسے عظیم فلسفی و دانا خدا کے وجود کے قائل تھے۔ وہ اس پوری کائنات کو موہوم، نقل اور حقیقت کا عکس خیال کرتے تھے۔ غالب اپنی تمام تر روشن خیالی، ترقی پسندی اور مذہب بیزاری کے باوجود مادے اور خیال کے تقدم و تاخر کے سلسلے میں خیال ہی کو اولیت دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے کلام میں اتنے اشعار ہیں کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا :

ہستی کے مت فریب میں آجائیو، اسد

عالم تمام، حلقۂ دامِ خیال ہے

اسی طرح یہ شعر :

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!

ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

یا یہ شعر :

شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے، عالم

لوگ کہتے ہیں کہ ہے، پر ہمیں منظور نہیں

یہ شعر ملاحظہ ہو :

جز نام، نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں، ہستیِ اشیا، مرے آگے

یہ شعر بھی :

خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ

ورنہ ہے چرخ و زمیں یک ورقِ گرداندہ

تمام مذاہب خدا کے وجود کا اِثبات کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے نوبل انعام یافتہ برطانوی ادیب برنارڈشا کو کہنا پڑا کہ :

” There is only one religion، though there are a hundred versions of it۔ “

تاہم بدھ مت میں کہا جاتا ہے کہ مابعدالطبیعاتی نظام کو منطقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کوئی قطعی اور اٹل نظریہ پیش کرکے اس کی حقیقت کا دعوی نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ بدھا کہتے ہیں :

” Enlighten yourself، don، t follow me۔ “

اسی طرح نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب اندرے ژید کا کہنا ہے :

” Believe those who are seeking the truth۔ Doubt those، who find it۔ “

علامہ اقبال کا شعر ہے :

تقلید کی روِش سے تو بہتر ہے خود کشی

رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

اقبال ہی کا ایک اور شعر ہے :

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو

آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

بدھ مذہب برہمن واد کے ردِعمل میں ابھرا تھا۔ یہ رد تو کرتا ہے مگر کوئی متبادل پیش نہیں کرتا۔ بدھا کا کہنا ہے :

” No one saves us but ourselves۔ We ourselves must walk the path۔ “

یہ بات روسو اس طرح کہتے ہیں :

” Nature never deceives us، it is we who deceive ourselves۔ “

گویا کائنات قدرتی قوانین کے تحت چلتی ہے۔ سٹیپن ہاکنگ انھیں سائنسی قوانین کہتے ہیں :

” The univese is governd by the laws of science۔ The laws may have been decreed by God، but God does not intervene to break the laws۔ “

گویا از روئے بدھ مت، فلسفہ اور سائنس سامانِ دعا و بد دعا کرنا بھی ایک کارِ بے کاراں ٹھہرتا ہے۔ غالب کہتے ہیں :

کس بات پہ مغرور ہے،

ٍٍ اے عجزِ تمنا!

سامانِ دعا وحشت و تاثیرِ دعا ہیچ

غالب ہی کا ایک اور شعر ہے :

گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے

اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی

اور پنڈت ہری چند اختر بھی عبث گِلہ کرتا ہے کہ:

خدا تو خیر مسلماں تھا مجھ کو دیتا کیوں

میرے لیے میرے پرماتما نے کچھ نہ کیا

کہتے ہیں کہ کسی دور افتادہ علاقے میں ایک کسان اپنی بارانی اراضی پر اگی ہوئی لہلہاتی فصل کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا اور ایک آخری بارش کے انتظار میں آسمان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ کسان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، مگر تھوڑی ہی دیر میں بارش نے طوفانی صورت اختیار کرلی اور اولے بھی پڑنے لگے۔ کسان کی فصل برباد ہوگئی اور اس کی خوشی پریشانی میں بدل گئی۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے خدا کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔

خط میں اس نے خدا کو لکھا کہ میرے سب کیے دھرے پر تو آپ نے پانی پھیر دیا ہے، اب اتنا کرم کیجیے کہ مجھے سو روپے نقد بھیج دیں، تاکہ اگلی فصل تک میرا گزارہ ہوسکے۔ اس نے خط پوسٹ کردیا۔ ڈاک خانے کے اہل کاروں نے خدا کے نام خط دیکھا تو ہنسنے لگے اور کسان کا خوب مذاق اڑایا۔ تھوڑی دیر بعد پوسٹ ماسٹر سنجیدہ ہوکر کہنے لگا کہ کسان کا ایمان بہت مضبوط ہے اور کاش میرا ایمان بھی اتنا مضبوط ہوتا۔ اس نے کہا کہ ہمیں کسان کی مدد کرنا چاہیے۔

انھوں نے چندہ اکٹھا کیا۔ کل ستر روپے جمع ہوگئے اور خدا کی طرف سے کسان کو بھیج دیے گئے۔ پوسٹ ماسٹر اور اس کے ساتھی خوش تھے کہ نیک کام کیا ہے۔ وہ امید کر رہے تھے کہ شاید کسان اب خدا کے نام شکریے کا خط بھیج دے۔ اگلے دن کسان کا ایک اور خط موصول ہوا اور پوسٹ ماسٹر نے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ خوشی خوشی کھول دیا۔ کسان نے خدا کو مخاطب کرکے لکھا تھا کہ میں نے آپ کو سو روپے کا کہا تھا مگر ملے مجھے ستر ہیں۔ یقیناً بقیہ تیس روپے ڈاک خانے کے بے ایمان اہل کاروں نے چرائے ہوں گے۔ اب مہربانی کرکے مزید تیس روپے ارسال کیجیے۔ مگر خیال رہے کہ بہ ذریعہ ڈاک نہیں، بلکہ کسی اور ذریعے سے بھیج دیں، کیوں کہ ڈاک خانے والے غبن کرتے ہیں۔

اس کہانی کے ہیرو کا کردار دلچسپ تو ہے، مگر ایک سیدھا سادہ، ان پڑھ کسان ہے، جس کے اعتقاد کی بنیاد اندھی تقلید پر ہے اور جو عقلِ سلیم ( کامن سینس ) سے بھی تہی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ تیسری دنیا کے کسی ذہین اور صاحبِ عقلِ سلیم پی ایج ڈی پروفیسر کا تصور کریں، جو یونیورسٹی میں فزکس پڑھاتا ہے، مگر مافوق الفطرت نظام پر اندھا اعتقاد رکھتا ہے۔ وہ طلبہ کو فزکس کی بے شمار برکتیں گنوائے گا، لیکن جہاں کہیں فزکس سے اس کے اعتقاد کو معمولی سی زَک پہنچنے کا احتمال ہو، وہاں وہ اسے خرافات پر محمول کرے گا۔ اور اگر وہ دعوا کرلے کہ وہ اندھا اعتقاد نہیں رکھتا، پھر کوئی بعید نہیں کہ وہ فزکس سے خدا کا وجود ثابت کرنے پر اصرار کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دَم کی ہوئی چینی سے ذیابیطس کے کامیاب علاج کرنے کا دعوی بھی کرلے۔

اندھا اعتقاد بجنسہ برا نہیں ہے۔ یہ تب برا بن جاتا ہے، جب اسے بنیاد بنا کر عدم برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، سوال کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر تخلیقیت کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے اور استدلال پر قدغن لگا کر کفر کا فتوا صادر کیا جاتا ہے اور اقبال کے مصرعے :

دینِ ملا فی سبیلِ اللہ فساد

کے مصداق فساد پھیلانے کا سامان کیا جاتا ہے۔

اس قسم کے مقلدین سائنسی اندازِ نظر نہیں رکھتے۔ چیزوں کو دیکھنے کے لیے ان کی اپنی نظر نہیں ہوتی۔ مشاہدہ کرنے اور سمجھنے پرکھنے میں خوف کا عنصر غالب رہتا ہے۔ زاویہ نظر منطقی اور سائنسی نہ ہو اور انحصار عقلی دلائل کے بجاے محض منقولات پر ہو تو عظمت کا معیار بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ رابندرناتھ ٹیگور کا کہنا ہے :

” نا فہمی سے کسی کو بڑا مان لینا صرف یہی نہیں کہ ماننے والے ہی کی خرابی ہے بلکہ سماج کے بڑائی کے اصول کی بھی تحقیر ہے۔ “

ایک عقیدہ ویسے بھی اتنا حباب آسا نہیں ہونا چاہیے کہ سوال، استدلال یا تحقیق کی تاب نہ لاکر تحلیل ہوجائے۔ اور اگر کسی عقیدے کو ان اچھے اوصاف ( سوال، استدلال، تحقیق ) سے ضعف پہنچتا ہو، پھر تو غالب کے مصرعے :

ہر کس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگاں خوش نہ کرد

کے مصداق کجی کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم اختیار کرنا اہلِ نظر کا شیوہ، سنتِ ابراہیمی اور عظیم مفکرین کی میراث ہے، سو بسم اللہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟

سوال کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے اور پھر اس کے لیے تسلی بخش جواب تلاش کرنے کی سعی کرنا ایک صائب عمل، جو حظ افزا بھی ہے۔ انگریز خلانورد جرمی بینتھم کا کہنا ہے :

” It is the greatest happiness of the greatest number that is the measure of right and wrong۔ “

تھامس جیفرسن امریکہ کے تیسرے صدر تھے۔ وہ ایک فلسفی اور مصنف بھی تھے۔ انھوں نے بلند پایہ خطوط بھی لکھے تھے جو بہت مشہور ہوئے۔ ایک خط میں وہ اپنے بھتیجے پیٹر کار کو لکھتے ہیں :

” غلامانہ تعصبات کے خوف کو اتار پھینکو جن کے نیچے کم زور ذہن سر نگوں بیٹھے ہیں۔ استدلال کو اس کے تخت پر بٹھادو اور ہر راے ہر حقیقت کو اس کے دربار میں پیش کردو۔ خدا تک کے وجود پر بے باکی سے سوال اٹھاؤ، کیوں کہ اگر کوئی خدا ہے تو وہ بھی اندھے خوف کی بجاے استدلال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے حق میں ہوگا۔ “

( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments