یو ٹرن


خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، بڑوں کی دیکھا دیکھی بعض اوقات چھوٹے بھی بڑوں والے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم نے سوچا ہم سے بڑے یو ٹرن لے رہے ہیں تو ہمارے ”کانٹا“ بدلنے سے کیا ہوتا ہے، چنانچہ ہم نے بھی اپنا بیانیہ بدل لیا ہے اور عین ملکی مفاد میں بدلا ہے۔ دوسرے بہت سے شہروں کی طرح ہمارے شہر میں بھی سڑکوں اور گلیوں کی حالت بہت ابتر ہے۔ سڑکوں کی اس خراب حالت کی وجہ سے گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور سائیکل والوں کا برا حال ہے۔

ان کے ٹائر ہر دم پنکچر ہونے اور پھٹنے کے خدشے سے دوچار رہتے ہیں۔ ہر قسم کی گاڑیوں کے دیگر لوازمات بھی اکثر اپنی جگہ سے ہلتے رہتے ہیں اور آئے روز ان کے معائنے کے لیے ان کی ورکشاپ یاترا ہوتی رہتی ہے۔ حادثات کے خطرات بھی ہموار اور شفاف سڑکوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ ان حالات میں متاثرین کی ذہنی حالت بھی کوئی اتنی تسلی بخش نہیں رہتی۔ کمر درد جیسے جسمانی امراض بھی ان سڑکوں اور گلیوں کی ناہمواری کے براہ راست اثرات کے طور پر آپ کے لیے ایک مستقل عارضہ بن سکتے ہیں۔ شہر سے باہر نکلیں تو ہمارے قریب ترین ملتان وہاڑی روڈ ہے جو کسی زمانے میں ملتان دہلی روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ ایک انتہائی اہم شاہراہ ہے لیکن اگر ملک میں کسی بھی ٹوٹی پھوٹی اور ٹریفک کے لیے کسی مخدوش اور خطرناک سڑک کا حوالہ دینا ہو تو اس کی مثال دی جا سکتی ہے۔

ہمیں جب بھی موقع ملے، کوئی بھی بات کرنے کی جگہ ملے، ہم متعلقہ حکام کی توجہ اِدھر موڑنے کے کوشش لازمی کرتے ہیں کہ شاید کبھی ان سڑکوں اور گلیوں کی فریاد بھی سنی جا سکے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ:

اک طرزِتغافل ہے وہ اُن کومبارک

اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

اب ہم نے ملکی مفاد میں یو ٹرن لیتے ہوئے ان سڑکوں اور گلیوں کی مرمت کے مطالبے سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے۔ اور اس کا تعلق براہِ راست ملک کی معاشی صورتحال سے ہے۔ جب ان سڑکوں اور گلیوں کی مرمت ہوگی تو ملکی خزانے پر بہت بوجھ پڑے گا، خزانے کی صورتحال چونکہ بہت کمزور ہے اور ہم ایسے مطالبے کر کر کے ملکی خزانے کو اور کمزور نہیں کرنا چاہتے۔ جب سڑکیں اور گلیاں صاف ستھری اور ہموار ہوگئیں تو گاڑیوں کے ٹائر زیادہ دیر تک اچھی حالت میں رہیں گے، پنکچر کے امکانات پہلے سے بہت کم ہو جائیں گے، ٹیوب لیس ٹائرز کی وجہ سے پہلے بھی پنکچرز کی شرح بہت کم ہو چکی ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے مطالبے پر سڑکوں کی مرمت کے بعد ٹاٰئروں والے اور پنکچر لگانے والے بھوکے مریں۔ بیمار کمروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کی آمدنی میں کمی بھی ہم بالکل نہیں چاہتے آخر انہوں نے بھی اپنے بچے پالنے ہیں۔ رہے ذہنی امراض تو بہتر ہے لوگوں کی توجہ خراب سڑکوں کی طرف ہی رہے ورنہ پر سکون ہو کر ان کی توجہ حکومت کے کچھ ایسے اقدامات کی طرف ہو جائے گی جو ان کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

اس کے علاوہ ہم شادیوں پر ہونے والے غیر ضروری اخراجات اور غیر ”شرعی“ تقریبات کے خلاف بھی بولتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے میں بھی اپنی رائے بدل لی ہے اور نیا بیانیہ جاری کر دیا ہے کہ یہ تمام اخراجات ہونے چاہئیں اور تمام رسومات پورے لوازمات کے ساتھ پوری ہونی چاہئیں۔ اب اگر ہمارے کہنے پر تمام لوگ جہیز دینا اور لینا بند کر دیں تو وہ لوگ جو جہیز کا سامان بناتے اور فروخت کرتے ہیں ان کے گھروں میں تو فاقے شروع ہو جائیں گے۔

ان کی قوتِ خرید کم ہوگی تو جہاں سے وہ لوگ سامان لیتے ہیں ان کی آمدنیوں میں بہت کمی واقع ہو جائے گی اور ملک میں کساد بازاری پھیل جائے گی۔ معاشیات کا یہی اصول ہے کہ خرید و فروخت میں اضافے سے ہی لوگ امیر ہوتے ہیں، حکومت کی آمدنی میں ٹیکس کی صورت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ کوئی بات نہیں دلہن کے صرف ایک دن کے پہننے کے لیے لہنگے پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں تو ہونے چاہئیں، آخر اس کو بنانے والے کی آمدنی میں تو اضافہ بھی توہوتا ہے نہ۔

مہندی کی رسم پر اگر ایک چھوٹی سی شادی کا خرچہ ہو جاتا ہے تو ہونے دیں آکر کتنے لوگوں کا روزگار اسی کام سے وابستہ ہے۔ ولیمے پر ہونے والے بہت زیادہ اخراجات پر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مذکورہ بالا معاشی اصول کے تحت آپ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا حصہ بمطابق جثّہ ڈال رہے ہیں۔ زیورات بھی اتنے وزنی ہونے چاہئیں کہ لوگ ان کے بوجھ سے دہرے ہو جائیں اور شریک منہ کے بل گر پڑیں، سونے کاکاروبار کرنے والے پھر اور کیا بیچیں؟

امید ہے آپ کو نئے حالات سے ہم آہنگ ہمارا یہ یو ٹرن بہت پسند آئے گا اور ہمارے اس نئے بیانئے کو عین ملکی مفاد کے مطابق سمجھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments