پاکستان 2020 میں سنگاپور نہیں بنے گا، ایک پورا سنگا پور پیدا کرے گا


ہر سال جب نئے سال کا آغاز ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ نیک تمناوں کا اظہار ہوتا ہے۔ رسمی طوق سمجھ کر اس کو گلے سے اتارا جاتا ہے۔ پاکستان میں جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو اس کی طرف سے ہر آنے والے سال یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ ”یہ سال ترقیات کا سال ہو گا“۔ ہر حکومت پچھلے سال کو پاکستان کے لئے مشکلات کا سال قرار دے کر عوام کو نئے سال میں دودھ کی نہریں جاری ہوجانے کی خوشخبری سناتی ہے۔ عوام بھی سال کے پہلے ہی دن ان سرسبز خوابوں کے مزے لینا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جوں جوں سال بیتتا ہے، آنکھیں کھلنا ہی نہیں، باہر آنا بھی شروع ہوجاتی ہیں۔

2020 کے آغاز پر بھی عمران خان نے کچھ ایسے ہی جملوں کو نیا رنگ چڑھا کر دہرایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے لئے ہر آنے والا سال مشکلات میں اضافے کا سال ہوتا ہے؟ ہر سال نوید صبح کی بجائے تاریک رات کا آغاز ہوتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہر سال کے اختتام پر ہر حکومت اس سال کو رسمی طور پر بُرا قرار دے کر آگے بڑھ جاتی ہے لیکن آئندہ سال میں ان مشکلات کا ازالہ نہیں کر پاتی؟

دراصل ہمیں احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ حکومت میں مزے لینے والے عوام کی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہر سال نئے بجلی کے منصوبے لگنے کے باوجود بجلی کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر سال گیس سے چلنے والی گاڑیوں میں کمی کے باوجود گھریلو و صنعتی صارفین کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔ ہر سال سٹاک ایکسچینج نئی بلندی کی سطح کو چھو لیتی ہے لیکن پھر بھی پاکستان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی۔ گندم، چینی وغیرہ میں خود کفیل ہونے کے باوجود ان کی قلت کا سامنا ہر سال کرنا پڑتا ہے۔ اگر قلت نہ بھی ہو ان کے ریٹ آسمانوں کو چھونے کا نیا ریکارڈ ہر سال ضرور بناتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، مذہبی شدت پسندی وغیرہ میں اضافے کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کے لئے کتاب درکار ہے۔

لیکن آخر یہ سب کیوں ہے؟ میرے خیال میں پاکستان کے مسائل کی وجہ آبادی کا غیر متوازی پھیلاؤ ہے۔ جس بے ہنگم طریقے سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس لحاظ سے حکومت بہت پیچھے ہے۔ نئے بجلی گھر لگنے کے باوجود، کم وولٹج والی مصنوعات کے استعمال کے باوجود ہر سال بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ آبادی کا غیر معمولی اضافہ ہے۔ 2 جنوری 2020 کے پہلے صفحہ پر ملک کے نامور اخباروں نے جو سرخی شائع کی وہ تھی وہ یہ تھی کہ ”سال نو کاپہلا دن: پاکستان میں ساڑھے سولہ ہزار سے زائد بچوں کی پیدائش۔” لیکن کسی نے اس خبر پر توجہ دینا گوارا نہیں کیا۔

آبادی کے بے ہنگم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے واحد پلان سٹی اسلام آباد میں اس وقت سو سے زائد غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں موجود ہیں۔ قانونی اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کا رخ کر لیں آپ کو ہر شہر کے ساتھ نئی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں نہ صرف تعمیر ہوتی نظر آئیں گی بلکہ گنجان آباد بھی نظر آئیں گی۔

آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافے کے مقابلے میں ہماری تیاری کیا ہے؟ ہمارے وسائل کیا ہیں؟ ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ سب کا جواب ناپید۔ گویا 2020 میں پاکستان میں 60 لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش متوقع ہے اور اسی قدر آبادی میں اضافہ ہوگا۔ (یہ تعداد رجسٹرڈ بچوں کی ہے۔ ان دور دراز علاقوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد معلوم نہیں جہاں سہولیات کی کمی ہے یا لوگ بچے رجسٹر نہیں کرواتے)۔ سنگا پور کی کل آبادی 58 لاکھ ہے۔ ہم 2020 میں سنگا پور تو نہیں بن سکیں  گے، ایک پورا سنگاپور ضرور پیدا کر لیں گے۔ ساٹھ لاکھ کے اضافہ کے لئے نئے ہسپتال درکار ہوں گے، نئے سکول کالج درکار ہوں گے۔ نئے گھر درکار ہوں ہوں گے۔ نئے روزگار درکار ہوں گے۔ غرض ہر چیز میں اضافہ درکار ہے۔ لیکن حالت ہماری یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے سے سانس لینے والے لوگوں کے لئے صاف پانی، روٹی، کپڑا مکان، علاج، تعلیم سمیت سینکڑوں مشکلات پہلے سے موجود ہیں۔

دعوے جتنے مرضی کیے جائیں، امیدیں جس قدر رکھی جائیں لیکن زمینی حقائق جو داستان سنا رہے ہیں اور مستقبل کا جو نقشہ دیکھا رہے ہیں وہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ ہم پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی اور مسائل کی فراوانی ہے۔ پاکستان کے مسائل کی جڑ آبادی کا بے ہنگم اضافہ ہے اور حکومت کا اس طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اگر ابھی سے مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اس سال کے آخر میں پھر وہی جملے ہوں گے کہ ”یہ سال مشکلات کا سال تھا اگلا سال ترقیات کا سال ہوگا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments