خدا، کائنات اور انسان سے متعلق غامدی صاحب کا زاویہ نظر


(پیش نظر مضمون جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ طویل نشستوں میں ہوئی گفتگو کا میرے فہم پر مبنی خلاصہ ہے جو قسط وار شائع کیا جائے گا۔ یہ نشستیں ”زاویہ غامدی“ کے عنوان سے یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ویڈیو ٹرانسکرپشن شاکر ظہیر صاحب نے کی ہے۔ )

عثمان رمزی: غامدی صاحب یہ بتائیں کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں، جیسے سوالات کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں کائنات کے وجود (Being) سے متعلق بنیادی سوالات کو حل کرنا کیوں ضروری ہے؟ انسان کے لیے کائنات کی توجیہ کرنا آخر کیوں ضروری ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ کائنات ہست و بود میں معنویت و مقصدیت کا عنصر سرے سے موجود ہی نہ ہو۔

جاوید احمد غامدی: اس طرح کا سوال جب بھی پوچھا جائے گا تو جواب حاصل کرنے کے لیے خود انسان کی تحلیل (Analysis) کرنی پڑے گی یعنی یہ دیکھنا ہو گا کہ انسان کیا ہے۔ چنانچہ انسان کا اگر آپ دیگر جانوروں کے ساتھ موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کے اندر تین امتیازی خصائص ہیں۔ انسان کا عقلی وجود (Cognitive Faculty) ، اخلاقی وجود (Moral Faculty) اور جمالیاتی حس (Aesthetic Sense) ۔ یہ تینوں چیزیں اس کے اندر ودیعت کر دی گئی ہیں جن کے کچھ نتائج بھی سامنے آئیں گے۔

مثلا جس طرح انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں اور وہ دیکھنے پر مجبور ہے، جس طرح انسان کو کان دیے گئے ہیں اور وہ سننے پر مجبور ہے، جس طرح انسان کو حس لامسہ (Sense of Touch) دی گئی ہے اور وہ چھونے پر مجبور ہے، بالکل اسی طرح انسان کو تعقل اور تدبر (Cognitive Faculty) کی صلاحیت بھی دی گئی ہے، جس کی عمل پذیری کے آگے وہ بے بس ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کائنات کی لم (Validity) جاننے کی کوشش میں لگا ہے۔

دوسرے لفظوں میں انسان جب تک کیوں کا جواب حاصل نہ کر لے یا جواب حاصل کرنے سے عاجز نہ آ جائے تب تک اپنے وجود کو کھوجتا رہتا ہے کیونکہ انسان ایک عقلی وجود ہے۔ وہ اپنے باطن کے علم کو باہر کی اشیاء سے متعلق (Relevant) کرتا ہے، پھراسی بنیاد پر وہ اشیاء پر حکم لگاتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ خارج میں موجود ان چیزوں کو صورت (Form) اور معنویت (Ideality/Meanings) دیتا ہے۔ یعنی تعقل کے اسی عمل پر انسان کی ساری زندگی اور تہذیب کا انحصار ہے۔

چنانچہ انسان کو اس عمل سے محروم نہیں کیا جا سکتا یعنی جس طرح اسے بھوک اور پیاس لگتی ہے بالکل اسی طریقے سے اس کے اندر تجسس پیدا ہوتا ہے اور وہ سوال پوچھتا ہے کہ یہ کیوں، وہ کیوں اور ایسے کیوں۔ تعقل کے نتیجے میں فلسفہ وجود پاتا ہے۔ لیکن انسان چونکہ فقط عقلی وجود نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اخلاقی وجود اور جمالیاتی حس بھی رکھتا ہے تو ان دونوں سے پیدا ہونے والے نتائج کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ جمالیاتی حس شعر وادب (Literature) کی مختلف اصناف اور فنون لطیفہ (Fine Arts) کی تخلیق میں مددگار ہوتی ہے جبکہ انسان کا اخلاقی وجود دنیامیں نظم اور ہم آہنگی قائم کرتا ہے، یعنی کچھ ایسے اصول ترتیب دیتا ہے جن پر باہمی تعلقات استوار کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا چارٹر انسان کے اخلاقی وجود ہی کا ظہور ہے۔ پس یہ سوالات بھی میرے اور آپ کے باطن کا ظہور ہیں۔

حسنین اشرف: غامدی صاحب کیا ایسا نہیں لگتا کہ انسان نے دیومالا (Mythology) اور قصے کہانیوں کے دامن میں آنکھ کھولی تھی جس کی وجہ سے انسان کے تجسس کا ایک خاص رخ پہلے سے متعین ہو گیا تھا۔ اور وہ رخ یہ تھا کہ مقصدیت کی تلاش کی جائے؟

جاوید احمد غامدی: آپ کی بات کو درست تسلیم کر نے سے پہلے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ خود دیومالا کے وجود میں آنے کی وجہ کیا ہے۔ کیا دیو مالا کی تخلیق انسان کے باطن میں موجود تجسس سے پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب کے علاوہ کچھ ہو سکتی ہے؟ انسان جو اس تگ و دو میں مبتلا ہے کہ کائنات کی کنہ (Reality) جان لے، اپنے وجودکی حقیقت کا فہم حاصل کر لے، کائنات کی ابتدا اور انتہا کو سمجھ لے، اسی لیے تو ہے کہ اس کے اندر تعقل اور تجسس کی صلاحیت روز اول سے رکھ دی گئی ہے اور وہ اس صلاحیت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

چنانچہ وجود اور معنویت سے جڑے اہم سوالوں کے جواب انسان خارجی تعامل کے بجائے اپنے باطن کی تسکین کے لیے تلاش کرتا ہے۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ جواب سارے درست بھی ہوں کیونکہ اگر انسان کے سامنے انواع واقسام کے کھانے نہیں ہوں گے تو وہ گھاس پر بھی منہ مارنے کے لیے مجبور ہو گا اس لیے کہ اسے بھوک لگتی ہے۔ اگر آپ کسی کو صاف شفاف پانی نہیں دیں گے تو ممکن ہے کہ وہ جوہڑ کا پانی پینے کے لیے مجبور ہو جائے، کیونکہ اسے پیاس لگتی ہے۔

بالکل اسی طرح انسان کی سرشت میں تجسس کی جو جبلت ہے وہ پوری قوت کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوتی اور مطالبہ کرتی ہے کہ کوئی جواب تلاش کیا جائے۔ اب یہ جواب کبھی دیومالا کی صورت سامنے آتا ہے، کبھی فلسفہ اور کبھی شاعری کی صورت۔ اس سے قطع نظر کہ کون سا جواب درست ہے اور کون سا نادرست، لازم ہے کہ جواب دیا جائے، جیسے بھوک میں کھانا اور پیاس میں پینا۔ یہ البتہ آپ کا حق ہے کہ میرے جواب کی تحلیل کر کے بتائیں کہ یہ جواب بے معنی ہے، یا دیومالا ہے، یا توہم اور خیال آرائی ہے۔ لیکن مجھے بحیثیت انسان جواب ہر حال میں دینا ہے۔ مجھ سے مراد وہ مخلوق (Specie) جس کے اندر تجسس پیدا ہوتا ہے۔

وقاص خان: غامدی صاحب آپ نے کہا کہ جواب کبھی دیومالا کی صورت سامنے آتا ہے، کبھی فلسفہ اور کبھی شاعری کی صورت۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جوابات ایک سے زائد ہیں، تو پھر ان کے مابین وجہ ترجیح کیا ہو گی؟ یعنی یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ والا جواب درست ہے اور وہ والا درست نہیں۔ مثلا یہ دعوی کرنا کہ کائنات کی الہیاتی تشریح درست ہے مگر فلسفیانہ یا سائنسی تشریح درست نہیں۔ میری دانست میں مختلف جوابات کے مابین وجہ ترجیح دراصل عقل ہی کی بنیاد پر قائم کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اگر تعقل اور تفلسف ہی پیمانہ ہے تو پھر ایک فلسفے (Nihilism) کے مطابق کہا جاتا ہے کہ معنویت کائنات اور نظم انسانی سب کچھ بے مقصد چیزیں ہیں۔ انسان کو معنویت (Ideality) کی تلاش ہی نہیں کرنی چاہیے، بس یونہی چلتے رہنا چاہیے۔ تو کیا عقل کی اس کرشمہ سازی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا؟

جاوید احمد غامدی: کائنات کی لامعنویت کا دعوی دراصل عقل کا اعتراف عجز ہے۔ کیونکہ عقل جب تنہا معنویت کی تلاش میں نکلی اور جن ذرائع سے عقل نے معنویت کو تلاش کرنا چاہا ان میں اسے پے در پے ناکامی ہوتی چلی گئی، آخری انجام پھر یہی ہونا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان معنویت کی تلاش سے الگ ہو گیا ہے۔ میں کہتا ہوں مابعد الطبیعات (Metaphysics) سے لے کر مابعد جدیدیت (Post Modernism) تک جو کچھ بھی وجود میں آیا ہے، انسان کے اس سارے سفر پر آپ ایک نگاہ ڈالیں یہ آخری آدمی ( Friedrich Nietzsche) جو چیخ چلا کر آپ سے کہہ رہا ہے کہ میرے غم مجھ تک رہنے دو، میرے (Narratives) صرف میرے ہیں۔

مجھے باقیوں سے کیا تعلق، اگر اسی کو یہ خبر دے دی جائے کہ وجود اور معنویت سے متعلق بنیادی سوالات کا کہیں سے حتمی جواب مل گیا ہے، تو وہ ہڑبڑا کر اٹھے گا اور بھاگ کر آئے گا یہ کہتے ہوئے کہ مجھے وہ جواب چاہیے۔ مذہب کو تو چلیں رہنے دیجیے، ہمارے زمانے میں چونکہ سائنس بھی ایک چھوٹا سا خدا بن چکی ہے، تو اگر اس شخص سے کہا جائے کہ سائنس دانوں نے ایک حتمی جواب تلاش کر لیا ہے، تو بھی انسان لپک کر اسے حاصل کرنا چاہے گا کیونکہ اس کے باطنی تجسس کی تسکین اسی میں ہے۔

چنانچہ لامعنویت اور نابودیت کا فلسفہ دراصل اعتراف عجز سے پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت ہے۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ نابودیت کا قائل مزدوری کی تلاش میں نکلے اس انسان جیسا ہے جو بے چارا روزانہ مزدور چوک پر کھڑا ہو جاتا کہ کوئی ضرورتمند اسے مزدوری کے لیے لے جائے گا لیکن جب برسوں اسے مزدوری نہیں ملی تو یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا کہ چلو جانے دو، آؤ خاک چاٹتے ہیں۔ کیا خاک چاٹنے کے اس اعلان سے اس کی معاشی ضروریات پوری ہو جائیں گی؟ نہیں۔ بالکل اسی طرح لامعنویت کی صورت عقل کے اس اعتراف عجز سے انسان کی باطنی پیاس بھی نہیں بجھی، اس کی بھوک نہیں مٹی، اور نہ ہی مٹ سکتی ہے۔ انسان آج بھی چاہتا ہے کہ وجود کائنات کا یہ معمہ حل ہو۔

(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments