ہر بچہ اپنا رزق لاتا ہے پھر یہ لوگ خودکشی کیوں کرنے لگے ہیں


کچھ بھی کہنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا۔ کہ میں خدا پے اتنا ہی یقین رکھتا ہوں۔ جتنا ایک سچے پکے مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اور اس کی عبادت اسی طرح کرتا ہوں۔ جس طرح ایک مسلمان کو کرنی چاہیے۔ اور پروردگار پے ایمان بھی اتنا رکھتا ہوں۔ جتنا آپ یا کوئی دوسرا مسلمان رکھتا ہے۔ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ کہ آپ مسلمان ہیں۔ اور خدا پے یقین رکھتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا جواب آگے پڑھ کر آپ جان لیں گے۔

میں ایک مسلمان ہوں۔ اگر کوئی کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ یا کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک اس کی عزت اتنی ہے۔ جتنی ایک دوسرے مسلمان کی ہونی چاہیے۔ اس کا نظریہ چاہے جو مرضی ہو۔ جتنا حق مجھے میرے مذہب میں ہے۔ اتنا اسے بھی ہے کہ وہ جی سکے۔ اپنے مذہبی معاملات کو انجام دے سکے۔ یہ بات بھی اس لئے کلیئر کر دی ہے کوئی مجھے مولوی ہی نا سمجھنے لگ جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ لوگوں میں رائج غلط توجیحات کا انکار کرتے ہیں۔ یا کسی مذہبی پیروکار یا اس کے کسی فرمان پر اعتراض کرتے ہیں۔ تو فورا سے پہلے لوگ ایک سوٹا تان کر آپ کے سر پر کھڑے ہو جاتے ہیں (تلوار کا الفاظ میں خود استعمال نہیں کر رہا) کہ آپ کافر، مرتد، مشرک ہیں۔ اور جب نام کے ساتھ نقوی ہو تو سمجھ لیں ایک مشہور زمانہ ڈائیلاگ تو بولا ہی جاتا ہے کہ تم متعہ کی پیدوار اب کیا بات کرو گے۔ سوائے مذہب پے اعتراض کہ، حالانکہ مولوی یا کسی مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار پر بات کرنا مذہب پر بات کرنا نہیں ہوتا۔

یہ طویل تمہید بس اس لئے باندھی گئی کہ خبر ہے کراچی میں بچوں کی گرم کپڑوں کی فرمائش پر باپ نے خودکشی کر لی۔ اس نے حکومت کو خط لکھے۔ تین ماہ سے بیروزگار تھا۔ اور ایک شور بپا ہے حکومت کو کوسنے کا۔ حکومت کا موقع فراہم نا کرنا ایک غلطی ہے۔ مگر کیا آپ ایک فلاحی ریاست میں رہ بھی رہے ہیں۔ جہاں کی ریاست یہ ذمہ داریاں حقیقت میں لینا جانتی ہو؟

یہ تو آپ کو سوچنا ہو گا کہ اگر ایسا ہے تو آپ حکومت کو لعن طعن کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو یقین جانیے آپ حکومت یا کسی اور ادارے سے زیادہ آپ ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ آپ کا خود سوزی کرنا نہیں بنتا۔ حا لات کا مقابلہ کرنا بنتا ہے۔ آپ نے بچے پیدا کیے ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ آپ کے مالی حالات کیا ہیں؟

اگر آپ ایک رکشہ چلانے والے، ایک مزدور یا ایسے فرد ہیں جو کم آمدنی رکھتے ہیں یا اس معاشرے میں رہتے ہوئے مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ اور ان حالات میں شادی بھی کر لیتے ہیں۔ چلیں ایک اور فرد کا بوجھ آپ اٹھا نے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

مگر مسئلہ تب ہے جب آپ بچے پیدا کرنے لگ جاتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ اولاد ضروری ہے۔ ورنہ سب آپ کو نا مرد کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد اپنی مردانی دکھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ کہ آپ بچے پیدا کریں۔ ورنہ چند ماہ بعد لوگ آپ سے آپ کے مرد ہونے یا نا ہونے پر بحث کرتے پائے جائیں گے۔

مگر سوال یہ بھی ہے کیا یہ لوگ آپ کے بھوکے بچے کا پیٹ پالیں گے۔ ان کی ضروریات پوری کریں گے۔ جواب ہو گا ہاں، کیونکہ نہیں تو آ پ سننا نہیں چاہتے۔

ایک دوست ہیں ان کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے۔ مگر بچہ پیدا نہیں کر رہے تھے۔ لوگ سوال کرنے لگے کہ یار علاج کروا و۔ جب کہ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ ابھی بچہ افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر لوگوں کا وہی جواب تم کرو تو سہی۔ خدا رازق ہے۔ اس کو رزق دے دے گا۔ اور تم نے اپنی نسل نہیں چلانی کیا۔ ان کا جواب تھا کہ خدا رازق ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں مگر پہلے کوشش تو کروں۔ کیا گھر بیٹھے بیٹھے من و سلوی اترے گا مجھے کوشش کرنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک میں بچے کو ایک بہتر مستقبل نہیں دے سکتا۔ تو میں اس جان پے ظلم کیوں کروں۔ نسل چلانے پر وہ اکثر جواب دیتے ہیں بھائی میں کون سا ڈائینوسار کی نسل ہوں کہ میری نسل ختم ہو جانی ہے۔ جب ان کی حالات بہتری کی طرف گامزن ہوئے تو انہوں نے پلان کیا اب وہ صاحب اولاد ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہر چیز کا مدعا دوسروں پر یا خدا پر ڈالنے کے عادی ہیں۔ کہ خدا رازق ہے بے شک وہ بہترین رازق ہے۔ مگر آپ کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ کہ رزق کے موقع تلاش کریں نہیں ہو رہے۔ نہیں کر سکتے تو ذرا صبر کر لیں۔ آپ اپنی بیوی سے جنسی تعلق رکھیں، ضرور رکھیں۔ مگر احتیاط کر لیں کنڈوم ایک بہترین آپشن ہے۔ مگر اکثر لوگ تو اسے کہتے ہی غیر ضروری ہیں۔ اس سے لطف نہیں آتا سیٹیس فکشن نہیں ہوتی۔ احتیاط ہو نہیں سکتی۔ بچے دھڑا دھڑ پیدا کرنے ہیں۔ اور پھر رونا بھی ہے۔

آپ ایک سائیکل جس کا ٹائر وزن ہی سو کلو برداشت کر سکتا ہے۔ اس پے دو سو کلو لاد کر کہتے ہیں کہ خدا جانے۔ یقین جانیے یہ خدا پر یقین نہیں۔ آپ کا اپنے آپ پر ظلم ہے۔ اپنی سواری کا آپ نقصان کر رہے ہیں۔

آپ نے خودکشی کر لی آپ چلے گئے اب ان بچوں کا کیا جو پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں جن کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ اب ان کو کون دیکھے گا؟

جس دور میں ایک متوسط طبقہ ایک فرد کا اضافہ برداشت نہیں کر سکتا وہاں آپ پانچ پانچ بچے پیدا کر کے ان معصوم جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ جو آپ کے جانے کے بعد مزید بدحالی کا شکار ہوں گے۔ ذمہ دار فقط آپ ہیں بس آپ۔ ان تمام باتوں کا ہرگز مطلب نہیں کہ اولاد پیدا کرنا بس ایلیٹ کلاس لوگوں کا حق ہے۔ میرے نزدیک تو صرف اسی کا حق ہے جو اس کو افورڈ کر سکتا ہے۔ ورنہ ہمیں آپ کے مرنے پر کوئی افسوس نا ہو گا۔ افسوس ہو گا تو ان

جانوں پر جو آپ کے اندھے فیصلوں کے سبب اس دنیا میں آئیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments