221 B بیکر سٹریٹ۔ 121 C داستان سرائے اور زنجیر کی نازک کڑی!


1998 کی بات ہے۔ میں ساتویں کلاس کو انگریزی پڑھا رہی تھی۔ شیرلوک ہولمز کی کسی کہانی کا کوئی اقتباس تھا۔ بچے بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ اس مختصر تحریر نے بچوں کو بے حد متاثر کر دیا تھا۔ شیرلوک ہولمز کے باریک مشاہدے، تفتیش کے منطقی اور سائنسی طریقوں کی وجہ سے وہ اسے ایک اصلی ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ شیرلوک ہولمز کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے۔ تو میں نے ان کو بتایا کہ لندن میں اس کا گھر ہے بیکر سٹریٹ پر۔

( اس زمانے میں کلاس رومز میں پروجیکٹر نہیں ہوتے تھے ورنہ میں ان کو اس مکان کی تصویر بھی دکھاتی) ۔ بچوں کی روشن آنکھوں میں اشتیاق دیکھا تو جی چاہا ان کو مزید بھی بتاؤں کیونکہ جب طالب علم اس کیفیت میں ہوتا ہے تو یہی وقت اس کو مزید ڈوز دینے کا ہوتا ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ جس شخص کی کہانی اور شخصیت سے وہ اس قدر متاثر ہو رہے ہیں وہ تو کبھی تھا ہی نہیں۔ ۔ پوری کلاس میں ایک حیرت کی آواز گونج گئی۔ بچے جاننا چاہتے تھے کہ اگر وہ اصل میں تھا ہی نہیں تو اس کا گھر کیسے موجود تھا؟

میں نے انھیں بتایا کہ یہ صرف ایک فرضی کردار ہے جسے سر آرتھر کونن ڈوئل نے تخلیق کیا۔ ان کے علم میں مزید اضافے کے لئے اور ان کے معصوم پر تجسس چہروں سے مزید محظوظ ہونے کے لئے میں نے انھیں بتایا کہ ایک بار سر آرتھر کونن ڈوئل جب اس فرضی کردار کو لکھ لکھ کے تھک گئے تھے تو انھوں نے اسے ایک کیس میں چوٹی سے گرا کر مار ڈالا۔ لوگ شیرلوک ہولمز کی کہانیوں اور اس کردار سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ یوں اس کی اچانک موت کو برداشت نہ کر سکے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کہانیوں کا یہ سلسلہ بند ہو جس سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ شیرلک ہولمز کو مزید پڑھنا چاہتے تھے۔ لوگوں نے سر آرتھر کونن ڈوئل ( Sir Arthur Conan Doyle) پہ احتجاج شروع کر دیا۔ یہ کوئی ہلکا پھلکا احتجاج نہیں تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیرلک ہولمز کو زندہ کرو۔ سارا لندن احتجاجی طور پہ کالے ہیٹ اور کالے کوٹ پہن کہ سڑکوں پہ آ گیا۔ بچے کس قدر انہماک سے سن رہے تھے اور میرے اندر ایک مصنف کی تخلیق کی ستائش کے لئے جو تفاخر کی لہر دوڑ رہی تھی، آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔ سر آرتھر کونن ڈوئل کے لئے مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ مرے ہوئے کردار کو زندہ کرنا پڑا۔ اسی چوٹی سے گرنے والے کردار کو اگلی کہانی میں چوٹی کی اوٹ سے بچا لیا تھا۔ بچے خوش ہو گئے۔ ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ سبق بچوں نے بہت مزے سے پڑھا۔ انھیں ادب کی حیرت انگیزیوں کا پتہ چلا۔ اور یہ بھی کہ وہ مکان جس میں شیر لوک ہولمز رہتا تھا وہ لندن میں موجود ہے۔ اس پتے پر ڈاک بھی آیا کرتی تھی۔

انھیں دنوں کی بات ہے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بہاولپور آئے تھے۔ سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں ان کے ساتھ ایک شام کا اہتمام تھا۔ ۔ ہمارے یہاں کے ادب کے بہت بڑے قابل احترام نام۔ دونوں عظیم ہستیاں ایک ساتھ۔ ہم جیسے مداحوں کے لئے ایک موقع تھا ان کے ساتھ ایک چھت تلے بیٹھنے کا۔ اس محفل میں سب کو ان سے بات چیت کرنے، سوال کرنے کا موقع بھی ملا۔ طریقہ یہ تھا کہ سوال اپنے نام کے ساتھ پرچیوں پہ لکھ کہ سامنے صوفے پہ بیٹھے ان دانشوروں تک پہچایا جاتا اور وہ جواب دیتے تھے۔

میری پرچی بھی گئی۔ سوال تو اپنی جگہ رہا۔ میری خوش نصیبی یہ ہوئی کہ میرا نام پڑھ کر اشفاق صاحب نے ’نبراس‘ کو کھڑے ہونے کی زحمت کرنے کو کہا۔ میری تو لاٹری نکل آئی۔ نام کے معنی پوچھے۔ میرے استاد ہونے پہ مجھے سراہا۔ عربی نام کی وجہ سے دو تین باتیں میرے خاندان کے حوالے سے کیں۔ میں تو معتبر ہو گئی۔ مگر اس محفل میں میرے دل کی تیز دھڑکن اور آنکھوں میں ستائش اپنی کلاس کے بچوں سے کچھ کم نہ تھی جو استاد کے علم سے مرعوب ہو رہے ہوتے ہیں۔

وہاں وہ استاد بیٹھے تھے جنھیں ہم پڑھ کر زندگی سیکھتے تھے۔ سوال تو جانے کیا نالائق سا کیا ہوگا میں نے۔ جواب میں پیار بھری باتیں تھیں۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کا فلسفہ زندگی کا فلسفہ ہے۔ آپ کو بتاتا ہے کہ عام سے محسوسات اور تجربات رکھنے والا آدمی بھی دانائی جیسے گوہر کا مالک ہو سکتا ہے۔ ان کے یہاں انسانوں میں چھوٹے بڑے، کم زیادہ کی تفریق ہے ہی نہیں۔ بس ایک عجز ہے جو انسان کو بلندیوں پہ لئے چلا جاتا ہے۔ تقریب کے بعد میں آگے بڑھ کر بانو قدسیہ سے ملی تو انھوں نے مجھے گلے لگا لیا اور میری ڈائری میں یہ خوبصورت آٹوگراف دیا۔ ’زنجیر کی کمزور کڑی ہی سب سے اہم کڑی ہے۔ وہ جب چاہے زنجیر کو توڑ سکتی ہے‘ ۔

آج یہ بظاہر الگ الگ دلکھنے دکھنے والے واقعات میری یادداشت میں ایک ساتھ ابھر رہے ہیں۔

221 B بیکر سٹریٹ، لندن۔ 121 C، داستان سرائے، لاہور۔ ایک افسانہ۔ ایک حقیقت۔ ایک مغرب کی محبت۔ ایک مشرق کی عقیدت۔ ایک وہ قوم جو کہانی کو سچ بنا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک یہ قوم جو سچ کو افسانہ بنا دینے کی قدرت رکھتی ہے۔ شیرلوک ہولمز میوزیم کے نام سے آج تک موجود اس مکان میں وہ تمام اشیا جو شیرلوک ہولمز سے وابستہ تھیں یا جو کہانیوں میں بیان کی گیئں، سب کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ اور ایک ’داستان سرائے‘ کے نصیب جس میں جیتے جاگتے عظیم انسانوں کے نشان تک نہ بچیں شاید!

زیادہ تر پاکستان اور بالخصوص لاہور سے باہر رہنے کے باعث مجھے داستان سرائے جانے کا اتفاق کبھی نہ ہوا۔ میرے ایک مصنف اور شاعر دوست محمد ظہیر بدر صاحب جب بھی وہاں جاتے تو میری خوشی کے لئے وہاں کی تصویر مجھے ضرور بھیجتے۔

’داستان سرائے‘ کی فروخت کی خبر نے دل کو بے حد مغموم کر دیا ہے۔ مگر جاتے جاتے بزرگ ایک اور سبق دے گئے کہ قدر کرنے والی قوموں کی شکل کیسی ہوتی ہیں اور بے قدری قومیں کیسی دکھا کرتی ہیں۔

جانے کن زمینی حقائق کی بنا پر داستان سرائے بیچا اور خریدا جا رہا ہے، میں نہیں جانتی مگر ایک کمزور کڑی بہت سوں کے داستان سرائے سے علمی، ادبی، روحانی تعلق کی مضبوط زنجیر ضرور توڑ دے گی۔ بانو قدسیہ کے الفا ظ کتنے سچے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments