اساتذہ کی تربیت اور اہمیت


ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر سائنس کی تعلیم دینا آسان ہے کیونکہ اس کا ایک مخصوص طریقہ ہے اور استاد کی اس سبجیکٹ پر کمانڈ ہونا کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ ہیومینٹیز (آرٹ سبجیکٹس) کلاس میں کیا کرنا ہے۔

طلبا قدرتی طور پر مختلف سطح کی مہارتوں اور صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان میں ذہانت کا مقیاس بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔

بعض طلبا بظاہر بہت ہوشیار اور تیز طرار ہوتے ہیں لیکن پڑھائی کے معاملے میں ان کا تحرّک اس درجے کا نہیں ہوتا جیسا انہیں دیکھ کر متوقع ہوتا ہے۔

اسی طرح بعض طلبا خاموش طبع اور قدرے شرمیلے ہوتے ہیں جبکہ پڑھائی میں ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

طلبہ کا بیک گراؤنڈ، ان کے گھر کا ماحول، ان کا رہن سہن اور گھر میں استعمال ہونے والی زبان سب چیزیں مل کر تقریباً ہر طالبِ علم کو دوسرے سے مختلف بناتی ہیں اور ان انفرادی اختلاف سے نمٹتے ہوئے طلبا کے تعلم اور اکتسابِ علم کے پراسس کو سب کے لیے سہل بنانا معلم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

خاص طور پر ہیومینیٹیز کے اساتذہ پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کی تربیت بھی کرنا ہوتی ہے۔ اور ان مضامین کا براہِ راست تعلق طلبا کی ذاتی، معاشرتی، خانگی اور مستقبل میں ان کی معاشی زندگی سے بھی جڑنا ہوتا ہے۔

اس لیے ان مضامین کے استاد کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریق پر نبھانے کے لیے ضرور ہے کہ وہ نہ صرف انسانی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ مستحکم اور معتدل مزاج کا حامل اور پر اعتماد شخصیت کا مالک بھی ہو۔ اسے اپنے مضامین کی اہمیت کا مکمل طور پر ادراک ہو۔ اسے یہ معلوم ہو کہ یہی وہ مضامین ہیں جن پر طلبا کی شخصی اور اخلاقی تربیت کا انحصار ہے اور یہی طلبا کو معاشرے سے مطابقت پیدا کر کے خود کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک مفید اور موافق شہری کے طور پر تیار کرنے والے ہیں۔

اس کے لیے سرکاری اور نجی ہر دو سطح پر اساتذہ کی تربیت کا اہتمام لازمی کیا جانا چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تربیت کو صرف بچوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ نہ والدین کے ساتھ تربیت جیسا لفظ استعمال کرنا ہمیں گوارا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے لیے۔

ہمارے ہاں عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ معاشرتی مضامین پڑھانے والے اساتذہ اپنی ظاہری شخصیت پر بھی سائنس، کمپیوٹر یا انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کے مقابلے میں کم توجہ دیتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے لے کر نشست و برخاست تک اور اپنا لیکچر ڈیلیور کرنے سے لے کر طلبا کے سوالوں کا جواب دینے تک ہر معاملے میں ایک باقاعدہ محسوس کی جانے والی کم اعتمادی، بیزاری، بد دلی اور اکتاہت دکھائی دیتی ہے۔

میرے خیال میں طلبا کی ان مضامین میں عدم دلچسپی کی نمایاں ترین وجوہات کی فہرست تیار کی جائے تو اساتذہ کا رویہ ان میں اہم ترین ہو گا۔

یہی وہ مضامین ہیں جن کے ذریعے ہم اپنا ثقافتی ورثہ اگلی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں اور انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ انہوں نے اس ثقافتی ورثہ سے استفادہ کیسے کرنا ہے، اس کی تشکیلِ نو کیسے کرنی ہے اور اس ورثے کی حفاظت دنیا میں ان کے انفراد کو برقرار اور قائم و دائم رکھنے کے لیے کس قدر ضروری ہے تاکہ جب وہ اپنا یہ ورثہ اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کریں تو یہ ورثہ اس سے بہتر حالت میں ہو جس میں ان کو ملا تھا۔ نہ صرف بہتر حالت میں ہو بلکہ اس میں مطلوبہ اضافہ بھی کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ورثہ پر فخر کر سکیں، نہ کہ اسے پسماندہ اور عیب دار سمجھ کر دوسروں سے چھپاتے پھریں۔

ایسی صورت میں جب استاد کی شخصیت سے ہی اپنے ورثے سے محبت کی جگہ اکتاہٹ اور بیزاری جھلکے گی تو طلبا کے دلوں اور ذہنوں میں اپنے اس ورثے کی اہمیت کیونکر اجاگر ہو سکے گی!

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments