کوئٹہ مسجد میں دھماکہ!


گزشتہ روز سیٹلائٹ ٹاون کوئٹہ کے ایک مسجد میں خوفناک میں دھماکہ ہو۔ اس دھماکے میں امام مسجد سمیت ایک درجن سے زیادہ نمازی جام شہادت نوش کر گئے اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ سب سے پہلی کوتاہی تو ہمارے ملک کے سیکیورٹی اداروں کی نظر آرہی ہے۔ محترم آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کوئٹہ کو محفوظ شہر بنانے اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ مگر ان سب دعووں کے باوجود دہشت گرد عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

ایسے واقعات سے پاکستان کی پوزیشن بیرون ملک بھی خراب ہو رہی ہے۔ ملک کی سیکیورٹی صرف اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہر ایک پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کی سر زمین کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔ اس ملک کی سیکیورٹی ہم سب کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ ملک میں موجود مشکوک عناصر پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ملک کے تمام مساجد کے انتظامیہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی مسجد کی سیکیورٹی کے حوالے سے تمام تر ضروری اقدامات کرے۔ ہمیں کسی صورت بھی اپنی حفاظت سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ان دھماکوں کی وجہ سے اس ملک کی قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ مسلسل ہمارے ہرے بھرے گھر اجڑ رہے ہیں۔ ہمارے بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ والدین بے سہارا اور عورتیں بیوا ہو رہی ہیں۔ ہم سب کو اس کا احساس ہونا چاہیے۔

کوئٹہ دھماکہ میں ایک ڈی یس پی امان اللہ بھی شہید ہوگئے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے جوان بیٹے کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کے یتیم بچوں کی ذمہ داری ڈی ایس پی امان اللہ کے ذمہ تھی۔ اب کوئٹہ دھماکے میں اس کی بھی شہادت ہوچکی ہے۔ ان کے یتیم پوتوں سے آخری سہارا بھی چھین لیا گیا۔ دہشت گرد بے حد سفاک اور ظالم ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی انسان پر وہ کتنا ظلم ڈھا رہے ہیں۔

مسجد کے اندر دھماکہ ہوا۔ مسلمانوں کو نماز کے دوران خون میں نہلایا گیا۔ امام مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کتنے مولویوں نے اس بے انتہا جرم کی مذمت کی۔ کتنے مذہبی تنظیموں کے لوگوں نے اس توہین مسجد پر احتجاج کیا۔ اگر یہی واقع کسی غیر مسلم ملک میں رونما ہو جاتا اور اس طرح بے گناہ نمازیوں کو خون میں نہلایا جاتا تو ہمارے مولوی اور دین کے نام نہاد ٹھیکیدار ضرور آسمان سر پر اٹھاتے۔ ملک کی گلی گلی میں احتجاجی مظاہرے کرتے۔ مگر افسوس کہ ایسے عناصر کو اپنے صفوں میں موجود اسلام دشمن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ان کو پاکستانی مساجد اور امام بارگاہوں کی توہین نظر نہیں آرہی ہے۔

کوئٹہ دھماکہ پر ہمارے عقیدے اور مذہبی جذبات ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ ہمارے دل اس ظلم پر پھتر بن چکے ہیں۔ ہمارے آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑ چکے ہیں۔ ہماری بصارت جواب دے چکی ہے۔ ہمارا احساس دفن ہو چکا ہے۔ مسلمان تو ایک جسم کے مانند ہوتے ہیں۔ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔

اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو اس کھلی بربریت اور مسلمانوں کی المناک شہادت پر ہمیں ضرور بے چین ہونا چاہیے۔ اگر اہم ان کے دکھ پر بے چین نہیں ہیں۔ اگر ہم ان کے دکھ پر غمگین نہیں ہیں تو پھر ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم مسلمان کہلانے کے قابل ہیں؟ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں۔ آج ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ہم کوئٹہ شہداء کے دردناک سانحہ کو بھول چکے ہیں۔ ہم نے اس واقعے میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ہم نے حکمرانوں سے مسجد کی سیکیورٹی میں غفلت برتنے والوں کے خلاف تحقیقات کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں توہین اور ظلم صرف باہر کی دنیا میں نظر آجاتا ہے۔ جب بات گھر پر آجاتی ہے تو ہم گونگے، بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments