پاکستانی ڈگریوں کا سکوپ


چند دن قبل ایک یونیورسٹی میں ”لیڈرشپ اور ٹیم ورک“ کے موضوع پر ٹرینینگ کروانے کے بعد جب میں ہال سے باہر نکلنے لگا تو چند طلبا نے فورآ سے گھیر لیا اور وہ سوال جو وہ ٹریننگ کے دورانیے میں نہیں پوچھ سکے تھے اب پوچھنے لگے۔

بچوں کا سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ہمارا ڈگری کرنے کے بعد کیا بنے گا؟ اور پھر انہوں نے اپنی مخصوص ڈگری کا بتایا کہ ہمیں باقی لوگ کہتے ہیں کہ اس کا کوئی سکوپ نہیں جبکہ ہماری یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ چھ کلاسز اسی ایک ڈگری کی ایک وقت میں چل رہی ہیں یعنی تقریباً دو سو بچوں کا ایک بیچ چھ ماہ نہیں تو سالانہ پاس آؤٹ کیا جارہا ہے۔ اور یہی ڈگری لاہور کی دو اور یونیورسٹیاں بھی کروا رہی ہیں۔

کچھ دیر قبل ایک اور سوال ایک بچی نے پوچھا تو مجھے یونیورسٹی والی ٹریننگ کا خیال آیا اور پھر قلم اٹھایا اور یہ سب لکھنے بیٹھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ مقابلے کے امتحان میں اتنی مشکل انگریزی کے سوالات کیوں پوچھے جاتے ہیں جو کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال نہیں کرتے۔

دراصل مقابلہ بہت سخت ہوگیا ہے۔ ایک ایک پوسٹ کے لئے ہزاروں امیدوار موجود ہیں۔ اب ان میں سے فلٹر کے لئے پیمانہ سخت بنانا مجبوری ہے۔

جتنی بڑی تعداد میں ہر چھ ماہ کے بعد بچے یونیورسٹیوں سے باہر نکل رہے ہیں ان کے لئے گورنمنٹ نے ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ لہذا آپ کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی تاکہ آپ اس مقابلے کی فضا میں اپنی جگہ بنا سکیں۔

اور دوسری اہم بات جو کہ میں اکثر بچوں کو تلقین کرتا ہوں کہ ”سکوپ ڈگری میں نہیں بندے میں ہوتا ہے ڈگریوں میں سکوپ ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے مچھلیوں یا ہاتھیوں کو اڑنا سکھانا“

آج کل کے پاکستانی حالات میں سبھی ڈگریاں ایک جیسی ہیں آپ ڈگری کو ایک ٹکٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک داخلہ ٹکٹ جتنی اہمیت رکھتی ہے۔ لہذا اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر کام کریں۔ اور خود کو اہل ثابت کرنے کے لئے اپنی ذات پہ کام کریں۔ بہت سارے بچے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ شاید ان کی ڈگریاں انہیں اہل ثابت کریں گی تو ایسا کچھ نہیں ہے۔

آپ وفاقی یا صوبائی مقابلے کا امتحان لینے والے اداروں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت ایک سیٹ پر امیدوار سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ اور ایک ایسے وقت میں جب آپ کے گردونواح میں مسابقت کی فضا قائم ہو وہاں پر سوائے صحیح سمت میں محنت کرنے کے اور کچھ نہیں بچتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments